مروہ خان میرانی
marwahkhan@hotmail.com
ایک اللہ والے سے کسی نے اپنے مقدر کی شکایت کرتے ہوئے کہا: جو کام کرتا ہوں الٹا, جو کام کرتا ہوں الٹا, میرے تو سارے کام ہی الٹے پڑے ہیں-
انہوں نے پوچھا: مہر دیکھی ہے؟ کہنے لگا: جی!
پوچھا: یہ بھی جانتے ہو کہ مہر پر لکھائی کیسی ہوتی ہے؟--------
کہنے لگا: مہر پر الٹے الفاظ لکھے جاتے ہیں-
انہوں نے پوچھا: میاں جانتے ہو سیدھے کیسے ہوتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔
کہنے لگا: جب مہر کاغذ پر لگتی ہے تو الفاظ سیدھے ہو جاتے ہیں-
آپ نے فرمایا: جس طرح مہر اپنا ماتھا کاغذ پر ٹیکتی ہے تو اس کے الٹے الفاظ سیدھے ہو جاتے ہیں, اسی طرح تو بھی وضو کر کے مسجد جا اور اپنے مالک کے حضور ماتھا ٹیک (سجدہ کر) تیرے بھی الٹے کام سیدھے ہو جائیں گے-سبحان اللہ!
وہ کیسے لوگ تھے جو مخلوق کو خالق کے قریب کرتے تھے!!!
اول تو ایک مسلمان کا اپنی تقدیر پہ شکایت کرنا بنتا نہیں لیکن اگر زندگی میں مشکلات آ بھی جائیں تو حضرت علی اللہ تعالی عنہ کا یہ بہترین قول یاد آتا ہے۔
"جنہیں سجدے میں رونے کی عادت ہو وہ تقدیر پہ رویا نہیں کرتے"-
روحانی لحاظ سے اللہ سبحانہ و تعالی نے جب اپنے بندے سے قریب ہونے کی تشبیہ دی تو یہ فرمایا ہے کہ میں اپنے بندے کے شہرگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ لیکن دنیاوی طور پہ جس ظاہری عمل سے بندا خدا تعالی کے سب سے زیادہ قریب ترین ہوتا ہے وہ "سجدہ" ہے-
حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
"بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے لہذا تم سجدے میں خوب دعا کیا کرو"- (مسلم)
انسان کا اپنا رب تعالی کے آگے جھکنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ رب کا فقیر و غلام ہے۔ اس کی عاجزی اور اس کی بے بسی اللہ تعالی کی رحمت کے منتظر رہتی ہے چاہے وہ نعمت کی شکل میں ہو یا طلبی و معافی کی شکل میں۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گرا سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
جب دنیا والے تمہیں گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کر دیں تو یہی بہترین وقت ہے سجدے کا۔ ~ مولانا رومی
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت ہے کہ جب بھی آپ کو اپنی حیات طیبہ میں مشکل کا سامنا ہوتا تو وہ نماز کی طرف رخ کرتے تھے۔ اللہ تعالی کے حضور جھکنے سے تمام تکلیفوں، تنگی، پریشانیاں و مصائب سے چھٹکارا حاصل ہوتا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے:
"جب دل تکلیف میں ہو تو سکون کے لیے بہترین جگہ سجدہ ہے"۔
اور ڈاکٹر مصطفی محمود کہتے ہیں: "خدا تک آپ کی سواری آپ کی جائیِ نماز ہے، اس تباہ شدہ زمین پر واحد محفوظ جگہ نماز کی چٹائی ہے۔
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہ جسم پر ایک جنگ میں تیر لگ گیا۔ وہ تیر اس قدر کھبا ہوا تھا کہ وہ نکالنے کے باوجود نہ نکلتا۔ لوگوں اور طبیب کی بے انتہا کوشش کے باوجود وہ تیر نہ نکلا اور اس کو ہاتھ لگنے سے بھی بے حد تکلیف ہوتی تھی۔ حضرت علی کرم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ جس وقت میں نماز میں سجدے کی حالت میں جاؤں گا تو تیر نکال لینا۔ جیسے ہی آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور جھکے لوگوں نے تیر نکالنے کی کوشش کی اور نماز کے بعد حضرت علی نے پوچھا کیا تیر نکل گیا ہے؟ تو انہوں نے کہا جی نکل گیا ہے سبحان اللہ!.
اس واقعے سے ہم دو طرح سے سبق حاصل کر سکتے ہیں ایک یہ کہ نماز میں جب مسلمان اللہ کے حضور خشوع و خضوع سیکھڑا ہوتا ہے تو اس کو دنیا کے معاملات کی ہوش نہیں رہتی۔ اور دوسرا یہ کہ جب بندہ صرف اللہ کے آگے جھکتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالی اس کی تکلیف بھی دور فرماتا ہے۔
جب آپ نماز پڑھیں تو آپ کوشش کریں کہ سجدہ مختلف جگہوں پہ کیا کریں کیونکہ قیامت کے دن وہ زمین جہاں جہاں آپ نے سجدہ کیا ہوگا وہ گواہی کے طور پہ اللہ کے آگے پیش ہوگی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی : ترجمہ: (اس دن وہ اپنی خبریں بتائے گی ) پھر فرمایا : ’’ کیا تم جانتے ہو زمین کی خبریں کیا ہیں؟ ‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا : ’’اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ ‘‘ فرمایا : ’’بے شک زمین کی خبریں یہ ہیں کہ وہ زمین بروزِ قیامت ہر مَرد اورعورت کے اْن اعمال کی گواہی دے گی جو انہوں نے اس کی پیٹھ پر کیے اور وہ زمین کہے گی : تو نے فلاں دن یہ عمل کیا اور فلاں دن فلاں کام کیا۔ یہ ہیں اس کی خبریں"۔ (ترمذی)
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
"جب بھی کوئی مسرت کی بات یا خوشی خبری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم, اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے"- (ابی داؤد)
خوشی و غمی دونوں ہی حالت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آگے جھکنا ایک بہترین عمل ہے۔
خوشی کا ہو یا غمی کا سجدے کی توفیق ملنا ہی بڑی بات ہے۔ ہمیں تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف انبیاء اسلام کی سجدہِ شکر ادا کرنے کی سنت رہی ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جب بھی مسلمان سجدہ کرتا ہے تو اللہ پاک جنت میں اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے"- (احمد)
اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں خلوص دل کے ساتھ صرف اور صرف اسی کے آگے جھکنے اور زیادہ سے زیادہ سجدے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تاکہ جس زمین پہ ہم زندگی میں چلتے پھرتے رہے ہیں قیامت کے دن وہ ہماری نیکیوں کی گواہ بن جائے۔
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعا:
"اے اللہ! میرے لیے اس سجدے کے عوض اپنے ہاں اجر لکھ دے اور اس کی وجہ سے مجھ سے گناہوں کا بوجھ اتار دے اور اسے میرے لیے اپنے ہاں ذخیرہ بنا دے اور اس سجدے کو میری طرف سے قبول فرما جیسے تو نے یہ سجدہ اپنے بندے داؤد علیہ السلام کی طرف سے قبول کیا تھا"- (ترمذی)
کسی بزرگ نے کیا خوب کہا ہے کہ جوانی میں زیادہ سے زیادہ سجدے کر لو کیونکہ میں نے اکثر بزرگوں کو بغیر سجدے کے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔