جہاں بینی 

May 31, 2024

نعیم فاطمہ علوی


حاصل مطالعہ نعیم فاطمہ علوی

بہت پیاری دوست ڈاکٹر عظمی سلیم کی نئی کتاب " جہاں بینی " میں نے بڑی توجہ دلچسپی اور لطف لے کر پڑھی۔ 
اسے قلم فاؤنڈیشن نے چھاپاہے کاغذ عمدہ ٹائیٹل دیدہ ذیب اور یہ کتاب ڈاکٹرعظمی سلیم نے اپنے مہربان "جہاں بین" رضا علی عابدی کے نام کی ہے۔
"جہاں بینی " حیرتوں کا ایک جہاں ہے سفر در سفر۔ جو گلگت اسکردو سے شروع ہوتا ہے اور پھر ایران عراق، اٹلی، ترکی اور اپنی زندگی کے نہاں خانوں میں چھپی زندگی اور موت کی کشمکش سے زندگی کشید کرنے پر ختم ہوتا ہے۔ 
اسلوب کی چاشنی اور اسفار کی دلچسپی اور حیرتوں کے مجموعے نے ایک لمحے کے لیئے بھی توجہ ادھر سے اْدھر نہیں ہونے دی۔ہم بھی ڈاکٹر عظمی کے ساتھ ساتھ حالت سفر میں رہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی مہم جو طبیعت۔ واقعات کی تہہ تک پہنچنے انہیں کھوجنے، جاننے اور پھر تنقیدی نظر سے دیکھنے کا عمل ان کی تحریروں سے صاف طور پر جھلکتاہی نہیں اسیخوبصورت بھی بناتا ہے۔ 
شخصیتوں پر اْن کی مٹی کا بہت اثر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی شخصیت کی بْنت  کا سفر سرگودھا سے شروع ہوا۔ اتفاق سے مجھے بھی کچھ عرصہ سرگودھا رہنے کا اتفاق ہوا۔۔ اس لیئے میں اپنے تجربے کی بناء  پر کہہ سکتی ہوں کہ سرگودھا کے لوگ بہت محبت کرنے والے اور میٹھے لوگ ہوتے ہیں۔ شاید یہ مٹی کا اثر ہے کہ محبت ، خلوص اور میٹھا پن اْن کی شخصیت کا خاص حصہ بن جاتاہے۔ 
شادی ہو کر گلگت گئیں تو زبانوں ، لہجوں ، اور معاشرت کے فرق اور ماحول نے اْن کے اندر تقابلی  جائزہ لینے کا وصف پیدا کیا۔ چیزوں کو مختلف طریقے سے دیکھنے اور جانچنے کی صلاحیت پیدا کی۔ وہ خود ایک جگہ مستنصر حسین تارڑ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتی ہیں
"ہر سیاح کو قدرت اس کی سفری صعوبتوں کے بدلے میں کوئی نہ کوئی انعام دیتی ہے۔ "
تو شاید ان سفری صعوبتوں کے بدلے میں ملنے والا میرا یہی انعام تھا، مختلف لوگوں کے مابین مقالمہ، مختلف لہجے، بولیاں، اندازِ معاشرت، اندازِ گفتگو، ہر پہلو سے غور کرنا اور تقابل کرنا میری عادت بن گیا جس نے بعد میں مجھے پی ایچ ڈی کا موضوع منتخب کرنے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا۔"
گلگت کے سفر نامے میں گلگت اور اسکردو کی معاشرت کے حوالے سے بھی بہت دلچسپ معلومات ملتی ہیں۔ 
ابتدائی سفروں میں مجھے یہ تجربہ بھی ہوا کہ اگر کوئی خاتون کسی ویگن یا بس میں اکیلی ہے تو اس کا بہت احترام کیا جاتا تھا اگرچہ میں بالکل تنہا نہیں ہوتی تھی میرے شوہر میرے ساتھ ہوتے تھے لیکن یہ تجربہ میرے لئے نیا تھا کہ گاڑی میں چڑھنے کے لیے دھکم پیل کی بجائے سب لوگ ایک طرف جمع ہو کر کھڑے ہو جاتے۔ میں انتظار میں رہتی کہ یہ لوگ بیٹھ جائیں لیکن میرے شوہر نے مجھے بتایا کہ یہ تمہارے انتظار میں کھڑے ہیں کہ تم بیٹھو تو یہ بیٹھیں گے خواتین کے احترام کا یہ رنگ میرے لئے نیا تھا لیکن یہ تیس برس پہلے کی بات ہے"
شمالی علاقوں کا حسن اور خوبصورتی جن لوگوں نے دیکھی ہے وہ تو خیر یقینا اپنی آنکھوں میں بھر بھر کر یادوں کے سنگھاسن  میں محفوظ کر لیتے ہونگے مگر جو مصنفہ کی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اْس کا بھی حسن کچھ کم نہیں ملاحظہ فرمائیے
" اور حقیقت یہ ہے کہ یہ علاقے جو سیاحوں کی جنت کہلائے جاتے ہیں ان میں سفر بجائے خود ایک خوشگوار تجربہ ہے۔ خواہ ریگستان کے درمیان کسی سڑک پر ہو یا دریا کے کنارے ہریالی کے بیچوں بیچ ہو یا پھولوں کے کنج میں بے آب و گیا ہ میدان میں جاتے جاتے اچانک سبزہ ایسی تازگی لیے آپ کے سامنے آتا ہے کہ حیرت آپ کا دامن جکڑ لیتی ہے۔ برف باری کے موسم میں جب ہر شہر سفید چادر تان لیتی ہے تو اس کی ایک الگ خوبصورتی ہے۔ رات کو آپ کھلے میدان میں نکلیں تو یہ فیصلہ کرنے میں مشکل ہوتی ہے کہ آسمان کے تاروں کو دیکھیں تا زمین پر جگمگاتی ہوئی روشنیوں کو۔ حتی کہ یہاں خزاں میں اس قدر حسن چھپا ہو اہے کہ اسے دیکھنے دور دور سے سیاح کھینچے چلے آتے ہیں۔ پتوں کے رنگ کالے، پیلے، نارنجی ،سرخ ،میرون ،بنفسی اس سرعت سے ہوتے ہیں کہ خود اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ اسی طرح پانیوں کے رنگوں میں جو دلکشی ہے وہ گھنٹوں تک دیکھتے رہنے سے بھی آنکھیں سیر نہیں ہوتی۔ آسمان کا چمکتا ہوا نیلا رنگ اور پھر اس پر اڑتے ہوئے سفید بادل جو اپنی جگہ تیزی سے تبدیل کرتے ہیں یہ سب مناظر ایسے ہیں جو کسی نہ کسی سفر میں سامنے آتے اور دل میں بس جاتے ہیں۔ اس لیے یہاں ایسے سفر سے دل کبھی نہیں بھرتا جو بے مقصد ہو۔گزشتہ تین دہائیوں سے یہاں رہنے اور مشکل راستوں سے ڈرنے کے باوجود، اب بھی میں اچھے موسم میں گاڑی لے کر ڈرائیو پر جانے کو ترجیح دیتی ہوں۔ جب ہلکی ہلکی برف پڑ رہی ہو اور چاروں طرف سفید برف بچھ چکی ہو تو ڈرائیو کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ اس طرح جہاں جہاں دریا سڑک کے ساتھ ساتھ ہے یا جھیل برلب سڑک ہے وہاں آپ سفر کرتے جائیں پانی کے رنگوں کو دیکھ کر قدرت کی صناعی کی جس قدر ہو سکے تعریف کریں گے اور رات کو اسی پانی میں اردگرد کی روشنیوں کے عکس کو دیکھیں گے تو پھر سے سبحان اللہ پکار اٹھیں گے اور پھر اس علاقے میں چاندنی رات کا حسن جس نے دیکھا ہے شاید وہ لفظوں میں بیان نہ کر سکے بس ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا اور دیکھنا جب تک وہ سامنے رہتا ہے"
یہ تو تھیں گلگت اور اسکردو کی کچھ جھلکیاں۔۔ ایران ، عراق، ترکی اور اٹلی کے سفر کی جھلکیاں دیکھنے کے لیئے سفر نامے کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اس سفر نامے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ایک جملہ بھی نظر انداز کرکے آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔

مزیدخبریں