بدھ ‘ 14 ذی الحج 1433ھ 31 اکتوبر2012 ئ

 گورنر خیبر پی کے نے کہا ہے: پنجاب حکومت دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔رانا ثناءاللہ کہتے ہیں کہ گورنر صاحب بیانات کے بجائے ثبوت دیں۔ جھوٹ ایسا بولناچاہئے کہ سچ بھی اس کے صدقے جائے مگر جھوٹ یہ ثاتر دے کہ میںسچ مچ کا جھوٹ ہوں تو جھوٹے پر وہی جو قرآن نے کہا ہے۔دہشت گردوںکی حوصلہ افزائی دہشت گردی کرتی ہے اور دہشت گردی کس کا نام ہے،اس کا جس کے بارے کسی پنجابی شاعر نے کہا تھا....ع
شکر دوپہر ککری دے تھلے میں چھنڑکائیاں ونگاں
 اب اس شاعرانہ دہشت گردی کا سراغ لگائیں جو اتنی نٹ کٹھ ہے کہ چوڑیاں وہ کھنکھناتی ہے اور آواز کسی اور کی کلائی سے آتی ہے،یہاں تک کہ خیبر پی کے کے گورنر بھی غچہ کھاجاتے ہیں یا انہیں کھلادیاجاتا ہے۔ بہر صورت گورنر خیبر پی کے ،رانا صاحب کو ثبوت دیں،چوڑیاں بے شک اپنے پاس ہی رکھ لیں کیونکہ ڈرون کا نشانہ اُن کے زیر انتظام صوبہ ہے،جہاں کی ملالاﺅں کی اُن کو ہر چند کہ خبر ہے خبر نہیں ہے۔ بھلا میاں برادران کو کیا پڑی ہے کہ وہ دہشت گردوں کی مدد کریں ،ویسے ماہرین دہشت گردی کا بھی کمال ہے کہ اپنے دامن پر دہشت گردی کی چھینٹ تک نہیں پڑنے دیتے مگرحقیقت پھر حقیقت ہے ....
الزام اُن کو دیتے تھے
قصور اپنا نکل آیا
٭....٭....٭....٭....٭
لوگوں کی نظروں سے بچنے کیلئے وینا ملک نے برقع پہن لیا۔ جب بھی کوئی خاتون کچھ نیا کرکے دکھاتی ہے یہ مرد حضرات اُس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔یہ اکیسویں صدی ہے یا پہلی صدی کہ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں اُس وقت کھڑے تھے جب آدمؑ نے حواؑ کو پہلی بار دیکھا تھا اگر اُس وقت کوئی اور مرد بھی موجود ہوتا تو ضرور اعتراض کرتا مگر ایسا نہ ہوسکا جو آج ہورہا ہے۔وینا ملک کو یہاں پاکستان میں کونسی آزادی حاصل تھی کہ بھارت جانے سے وہ چھن گئی،پاکستانی خاتون اندر سے جکڑی ہوئی ہے اسے آزاد کیاجائے تاکہ سورما پیدا ہوں یوں ڈرون حملوں کے آگے لم لیٹ ہونے والوں کی پروڈکشن رُک جائے،جب وینا برقع نہیں پہنتی تھی تو سب اسکے لباس کو عریانی کی علامت قرار دیتے تھے، اب اگر برقع پہن کر ممبئی کی سڑکوں پر گھومتی ہے تو بھی ایک اذیت ناک تعجب کا اظہار کیاجارہا ہے،آخر یہ عورت ہمارے معاشرے کے مردوں کے اعصاب پر کیوں سوار ہے، یہ ہوا،یہ فضا، یہ پوری دنیا مردوزن دونوں کیلئے بنائی گئی ہے اور یہاں جو کچھ ہے وہ دونوں کا سانجھا ہے،الغرض آزادی کا مطلب آزادی ہے اور آزادی کو مادرپدر آزادی سے بچانے کیلئے اللہ نے ہر انسان کو شعور دے رکھا ہے ہم اس مصرعے کو بھی آزاد نظر سے دیکھتے ہوئے یوں کہناچاہتے ہیں کہ ....ع
وجود مردوزن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
٭....٭....٭....٭....٭
دو خبریں دونوں کی بنیاد عقیدت مندی ہے مگر جدا جدا، پہلی خبر کے مطابق چودھری شجاعت اپنے وفد کے ہمراہ خواجہ¿ اجمیر کی زیارت اور بھارت کے دورے پر ہیں، جبکہ انہیں دستاویزات مکمل نہ ہونے کے شبہ میں روک لیا گیا،سفارت خانے کی مداخلت پر اجازت ملی،دوسری جانب عمران خان کا تذکرہ عام ہے کہ اُن کے ساتھ ٹورنٹو ائر پورٹ پر ناروا سلوک کیا گیا مگر خان صاحب نے کہا ہے کہ مسئلہ حل ہوگیا اُن کا ناروا سلوک پر تبصرے سے گریز۔ خواجہ¿ اجمیر بھی اب جان گئے ہیں کہ یہ پاکستان کے سیاستدان حکمران اُن کے مزار پر کیا لینے آتے ہیں،اسلئے وہ پسند نہیں کرتے کہ یہ اب اُنکے احاطے میں داخل ہوں اور چودھریوں کے لچھن تو اُن پر پہلے ہی عیاں ہوچکے ہیں کہ اُن کا قبلہ کوئی اور ہے اور مرکز عقیدت کوئی اور۔انصاف والے خان صاحب بھی سونامی بن کر امریکہ روانہ ہوئے کہ ٹورنٹو ائر پورٹ پر اُن کو اتار کر اُن کی خوب مہمان نوازی کی گئی جس سے وہ مطمئن ہیں اور فرماتے ہیں مسئلہ حل ہوگیا۔چودھریوں اور عمران خان کا مسئلہ ایک ہی ہے اور دونوں کا حل بھی ایک ، امریکہ ہویا بھارت دونوں ملک ہمارے اہل اقتدار و اہل سیاست کا دوسرا گھر ہیں ، وہ جب چاہیں جاکر اپنی مرادیں پوری کرسکتے ہیں، زرداری صاحب نے تو خواجہ اجمیر کو پاکستانی عوام کے 10لاکھ روپے بھی ادا کردئیے جو خواجہ¿ اجمیر ضرور کسی مناسب موقع پر واپس کردینگے اور خان صاحب بھی امریکی حکمرانوں کو باور کرا آئے ہیں کہ ....ع ”میں بھی تو ہوں“
دونوں پر یہ گانا فلمائز کیاجاسکتا ہے ....
 دو دیوانے دل کے چلے ہیں دیکھو مل کے
چلے ہیں چلے ہیں چلے ہیں سسرال
٭....٭....٭....٭....٭
 سکھر میں قیمت کم نہ کرنے پرسی این جی ایسوسی ایشن کے خلاف شہریوں نے گدھوں پر بیٹھ کر مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کیلئے اتنے گدھوں کی دستیابی ثابت کرتی ہے کہ سکھر میں گدھے وافر تعداد میں پائے جاتے ہیں،اتنے گدھوں کے ہوتے ہوئے سی این جی استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے،گدھوںپر سواری کریں، سنت بھی ہے اور سی این جی سے چھٹکارا بھی ، جب سپریم کورٹ نے سی این جی سستی کردی ہے اور یہ سستی ہوکر بھی ڈیلروں اجارہ داروں کو خاصا منافع دے جاتی ہے تو پھر یہ ایک روپے پر سو روپے منافع پانے کی ہوس کیوں؟ مشیر پٹرولیم کو غصہ تو آیا ہے خدا کرے یہ برقرار رہے اور وہ مستقبل کا صیغہ استعمال کرنے کے بجائے سیدھے سیدھے آرڈر جاری کریں کہ سی این جی والوں کے لائسنس منسوخ کردئیے گئے اور عید کی چھٹیوں میں وسیع تر قومی مفاد کی خاطر اضافہ کردیاجائے اور وہ اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ سی این جی والے اُن کے اپنے ہیں اب اُن کے ساتھ ”پرایوں “یعنی پاکستانی قوم جیسا سلوک کریں تو سی این جی سستی ہوکر رہے گی،یہ نہ کہیں کہ کنکشن کاٹیں گے بلکہ بریکنگ نیوز آئے کہ کاٹ دئیے گئے، پی پی کی حکومت نے اتنا پیاراوراتنی سہولیات و مراعات قوم کو دی ہیں کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئی ہے....
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کو بھی پھر تم ہی ملو گے؟
٭....٭....٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن