1943ءمیںانگرےز فوج مشہور جرمن جرنیل رومیل کے خلاف مشرق وسطیٰ میںلڑرہی تھی کہ دونوں طرف سے بہت سی یونٹوں کو جنگی قیدی بنا لیا گیا ۔ انگریزی فوج کی طرف سے جنگی قیدی بننے والوں میں میجر کمار امنگلم جو بعد میں 1960 کی دہائی میں بھارتی فوج کا چیف بنا۔ میجر اجیت سنگھ۔ میجر کئے۔ کیپٹن یحییٰ خان ۔ کیپٹن ٹکا خان ۔کیپٹن صاحبزادہ یعقوب خان ۔ لیفٹیننٹ حسام آفندی ۔ کیپٹن شمشیر سنگھ ۔کیپٹن ناراونے ۔کیپٹن کلیار سنگھ اور بہت سے ساتھی شامل تھے ۔ا©سوقت کے کیپٹن ناراونے اور کیپٹن کلیار سنگھ بعد میں بھارتی فوج سے بطور میجر جنرل ریٹائر ہوئے ۔ ان قیدیوں کو پہلے تبروک پھر بن غازی (موجودہ لیبیا ) کے جنگی قیدیوں کے کیمپوں میں رکھا گیا وہاں سے انہیں اٹلی بھیج دیا گیا ۔وہاں بھی یہ مختلف کیمپوں سے ہوتے ہوئے نیپلز کے نزدیک ایک ”آورسا “نامی جنگی کیمپ میں پہنچا دئیے گئے۔ اس دور میں جنوبی افریقن ٹروپس بھی انگریزی فوج کا حصہ تھے ۔
اطالویوں نے جنوبی افریقہ کے سینئر فوجیجنگی قیدی کرنل پاگیسے کو کیمپ کمانڈنٹ مقرر کر دیا اوراُسکے نیچے مختلف یونٹوں کے قیدیوں کے گروپس بنا کر میجر رتبہ کے افسران کو کمانڈنگ آفیسرز بنادیا۔ جس کیمپ میں یہ لوگ تھے اُس کیمپ کا کمانڈنگ آفیسر پہلے میجر کمارامنگلم اور بعد میں میجر کئے بنا۔ یحییٰ خان کیمپ ایجوٹننٹ جبکہ کیپٹن شمشیر سنگھ اُس کا نائب اور کیپٹن ٹکا خان کوارٹر ماسٹر بنادیا گیا۔ اطالوی فوج کی طرف سے کرنل اریر کیمپ کمانڈنٹ تھا۔ شروع شروع میں اطالویوں نے نفسیاتی حربے کے طور پر جنوبی افریقن اور بھارتی ٹروپس کے درمیان اختلافات اور باہمی نفرت پھیلانے پر کام کیا۔ ایک دن اطالوی کمانڈنٹ نے بھارتی کمانڈنگ آفیسر میجر کئے۔ ایجوٹنٹ کیپٹن یحییٰ خان اور کیپٹن شمشیر سنگھ کو بلایا۔ کیپٹن یحییٰ خان واحد فوجی آفیسر تھا جو اطالوی زبان بول سکتا تھا۔ انہیں کیمپ کا انتظام بہت احسن طریقے پر چلانے کےلئے مبارکباد دی۔ ان حضرات کی مزید دلجوئی کےلئے انہیں کیمپ کے اندر بلکہ اردگرد بھی آزادی سے گھومنے پھرنے کی اجازت بھی دےدی گئی۔ اس کاروائی کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہندوستانی فوجیوں کے دل میں اطالوی فوج کےلئے احترام پیدا ہواور وہ اسے اپنا ہمدرد سمجھیں۔کیمپ میں تمامتر تکلیفات کا ذمہ دار جنوبی افریقن فوج کے کیمپ کمانڈنٹ کرنل پاگیسے کو سمجھا جائے۔ اسکے ساتھ ساتھ اطالویوںنے انگریزوں کےخلاف بھارتی فوجیوں میں نفرت پھیلانے کےلئے علیحدہ نفسیاتی جنگ کا آغاز کیا۔ اُس دور میں سبھاش چندرابوس کی انڈین نیشنل آرمی کا بڑا چرچا تھا۔ ان لوگوں کی انگریزوں کےخلاف کاروائیاں نہ صرف بہت مقبولیت حاصل کر رہی تھیں بلکہ یہ تحریک تیزی سے پھیل رہی تھی حتیٰ کہ ملایا میں بھی اسکے یونٹ قائم ہو چکے تھے۔ جرمن۔ جاپانی اور اطالوی سب ملکر انڈین نیشنل آرمی کی پشت پناہی اورامداد کر رہے تھے جواُنکے خیال میں انگریزوں کو اٹھا باہر پھینکے گی۔ یہ تھی بھی حقیقت کیونکہ ایک مرحلے پر اس کی تعداد 60ہزار سے اوپر چلی گئی تھی۔ اگر امریکہ جاپان پر ایٹمی حملہ نہ کرتا تو شاید یہ فوج کامیاب بھی ہوجاتی۔ اب جب اطالوی کمانڈر نے بھارتی فوجی افسران کا اعتماد حاصل کرلیا تو کرنل اریر نے ایک دن ان لوگوں کو پھربلایا۔ ان لوگوں کی صلاحیتوںکی تعریف کرنے کے بعد ان سے مشورہ چاہا کہ تحریک آزادی کے مشہور بھارتی لیڈر سبھاش چندرابوس کو کیمپ کے بھارتی ٹروپس سے خطاب کی دعوت دی جائے۔ کمانڈنگ آفیسر میجر کئے نے سرکھجاتے ہوئے یحییٰ خان اور باقی ساتھیوں کی طرف دیکھاتو یحییٰ نے لال آنکھیں دکھائیں جسے دیکھ کر میجر کئے نے معذرت کر لی ۔ اطالوی کمانڈنٹ اس انکار پر سیخ پا ہو گیا اور ان لوگوں کو زیر حراست لیکر ان کےلئے قید تنہائی کا حکم دیدیا۔ اطالوی گارڈ انہیں مارچ کراتے ہوئے انکے قید خانے تک لے جانے کےلئے کیمپ کے درمیان سے گزرے۔ جوانوں نے اپنے افسران کی یہ حالت دیکھی تو وہ فوری طورپر اٹھ کھڑے ہوئے اور پورے کیمپ میں بغاوت پھیل گئی۔ اس پر اطالوی کمانڈنٹ نے انہیں واپس بلوایا۔ قید تنہائی کا حکم منسوخ کیا اور تین دن تک انہیں سوکھی روٹی اور پانی پر بطور سزا رکھا گیا۔
اسی دوران دو مسلمان سویلین کو کیمپ میں بطور چپڑاسی ملازمت دی گئی۔ یہ دونوں حضرات کیمپ میں ایک قیدی رسالدار کے عزیز تھے۔ پاکستان اُس وقت تک محض ایک ابتدائی تصور تھا۔ فوجیوں کو بھی اسکی پوری تفصیل سے کوئی واقفیت نہ تھی۔ انڈین نیشنل آرمی زوروں پر تھی جو اُس وقت آزادی کی واحد اُمید تھی۔ ان دو چپڑاسیوں کا مسلمان افسران سے میل جول بڑھا تو وہ انہیں باہر سے ضرورت کی اشیاءلا کر دینے لگے۔ یہ دونوں حضرات اکثر پاکستان کی باتیں کرتے۔ پھر انہی دنوں ان بھارتی ٹروپس کو ایک بڑے کیمپ ”آویزانو“ منتقل کر دیا گیا۔ وہاں مسلمان افسران اور مسلمان ٹروپس میں پاکستان کے متعلق دلچسپی مزید بڑھنے لگی۔ اکثر اِن کی آپس میں اس موضوع پر بحث ہوتی جس سے ہندو افسران بہت ناخوش تھے۔ انہیں پاکستان کے نام سے چڑسی ہونے لگی ۔ ایک دن ایسے ہی پاکستان کا ذکر ہوا تو کیپٹن ناراونے نے پاکستان کے موضوع پر بہت غصہ دکھایا اور پاکستان کو بُرا بھلا کہا۔ یحییٰ خان سامنے تھا۔ اُس سے پاکستان کے خلاف بد تمیزی برداشت نہ ہوسکی۔ اُس نے کیپٹن ناراونے کے منہ پر تھپڑ دے مارا اور یہ پاکستان کی حفاظت کی پہلی جنگ تھی۔ اتنی دیر میں کیپٹن ٹکا خان۔ صاحبزادہ یعقوب خان اور کیپٹن شمشیر سنگھ بھی آگئے۔ سب مرنے مارنے پر تیار ہوگئے۔ فوج میں کسی آفیسر کا کسی ساتھی آفیسر پر ہاتھ اُٹھانا ایک غیر معمولی واقعہ ہوتا ہے جس کا انجام کورٹ مارشل ہوتا ہے لیکن یحییٰ خان انجام سے بے نیاز ہو کر ”پاکستان“ کے نام کےلئے سب کچھ کرنے کےلئے تیار ہوگیا۔ آفرین ہے ایسے آفیسر پر۔ باقی لوگوں کے آنے سے بچ بچاﺅ ہوگیا اور معاملہ آگے رپورٹ نہ ہوا لیکن ہندو آفیسرز کو آئندہ کےلئے تنبیہ ہوگئی۔ بعد میں بھارت کے مشہور جرنیل پرتاب نارائن نے اپنی کتاب"Subedar to Field Marshal" میں یہ واقعہ درج کرتے ہوئے لکھا ہے۔
"It is worth considering whether this camp was the real birth place of Pakistan" ”یہ نکتہ اس سوچ کا متقاضی ہے کہ کیا یہ کیمپ ہی واقعی پاکستان کی اصل جائے پیدائش تھا کیونکہ یحییٰ خان اور باقی مسلمان افسران نے پاکستان کاذکر کر کرکے اسے منی پاکستان بناڈالا لیکن افسوس کہ پاکستان کےلئے پہلی جنگ لڑنے والا سولجر پاکستان کی سالمیت کی حفاظت نہ کرسکا“۔
پاکستان کےلئے ”پہلی جنگ “کیپٹن یحییٰ خان نے لڑی
Oct 31, 2012