کچھ حلقے سیاق و سباق اور حقائق سے ہٹ کر اپنی متنازع فیہ تحریروں کے ذریعے بانیان پاکستان کی جد و جہد کو بھی متنازعہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ملک کے ایک اہم اینکر اور قلم کمان کے نام سے کالم لکھنے والے کالم نویس حامد میر جن کی وجہ شہرت مشہور دانشور اور اُنکے والد گرامی وارث میر مرحوم سے منسلک ہے اپنی کچھ متنازع فیہ تحریروں کے سبب اِسی قلم قبیلے میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
جناب حامد میر نے مورخہ 28 اکتوبر 2013 کو ایک قومی روزنامے میں شائع ہونے والے اپنے کالم ' بھارت نواز شریف سے ناراض کیوں' میں بڑے معصومانہ انداز میں درج ذیل یکطرفہ یاداشت کے حوالے سے لکھا ہے ۔" 14 اگست 1947 کی شب پاکستان کے نام سے ایک مملکت وجود میں آئی جس کے نام میں ،ک، دراصل کشمیر کی نمائندگی کر رہا تھا ۔ مسلم لیگی رہنما سردار شوکت حیات نے 1947 میں کشمیر میں شروع ہونے والی مسلح مزاحمت میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ اُنہوں نے اپنی کتاب ،گم گشتہ قوم، میں لکھا ہے کہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے وزیراعظم لیاقت علی خان کو بھارتی رہنما سردار پٹیل کا پیغام دیا کہ پاکستان حیدر آباد اور جونا گڑھ سے دستبردار ہو جائے کیونکہ یہ دونوں ہندو اکثریتی علاقے ہیں ، جواب میں بھارت کشمیر سے دستبردار ہو جائیگا ۔ یہ پیغام دیکر مائونٹ بیٹن چلا گیا تو ہم نے لیاقت علی خان سے کہا کہ حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کے بدلے جموں و کشمیر لینے میں کوئی حرج نہیں ، جس پر لیاقت علی خان نے بڑے غصے میں سردار شوکت حیات خان سے کہا ،، میں پاگل تو نہیں کہ حیدر آباد جو پنجاب سے بھی بڑا ہے اُسے کشمیر کی چند پہاڑیوں کے عوض چھوڑ دوں ،،۔ اِسی لیاقت علی خان نے سیز فائر قبول کر لیا اور اِسکے بعد پاکستان کے سیاسی و فوجی حکمرانوں نے کشمیر پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کئے رکھا " ۔پہلے تو حامد میر صاحب نے اِس اَمر کی ہی وضاحت نہیں کی ہے کہ لارڈ مائونٹ بیٹن کی لیاقت علی خان سے سردار شوکت حیات کی موجودگی میں کب اور کہاں ملاقات ہوئی کیونکہ اِس نوعیت کی ملاقات کا ریکارڈ نہ تو انڈیا آفس لائبریری لندن کے حوالے سے سامنے آیا ہے اور نہ ہی کسی آزاد ذرائع سے اِس ملاقات کی تصدیق ہوتی ہے ۔ اگر ایسی کوئی تجویز قیام پاکستان سے قبل وائسرائے ہند کی حیثیت سے لارڈ مائونٹ بیٹن کی طرف سے سامنے آتی تو وہ قائداعظم محمد علی جناح کو اعتماد میں لینے کوشش کر سکتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسلم انڈیا کی جانب سے کوئی اور شخصیت ایسی کسی تجویز پر فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے ۔ اگر یہ قیام پاکستان کے بعد کی بات ہے تو لارڈ مائونٹ بیٹن گورنر جنرل بھارت کی حیثیت سے وزیر امور داخلہ سردار پٹیل کی کوئی بھی تجویز ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کی رضا مندی کے بغیر پاکستان کے وزیراعظم کے سامنے پیش نہیں کر سکتے تھے جبکہ کشمیر کے حوالے سے تاریخی حقائق قطعی مختلف ہیںکیونکہ مائونٹ بیٹن تو جواہر لال نہرو کی ہدایت پر کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کے خفیہ مشن پر کام کر رہا تھا۔تاریخی حقائق کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات وضاحت سے سامنے آ جاتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کی پیدائش نہرو۔ مائونٹ بیٹن خفیہ سازش کے باعث ہی ممکن ہوئی تھی جس کی ابتدا بائونڈری کمیشن کے ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے مسلم اکثریتی ضلع گورداسپور کی تین تحصیلیں بھارت کے حوالے کرکے بھارت کو کشمیر میں آگے بڑھنے کا راستہ فراہم کر کے کی گئی اور جس خدمت کے انعام کے طور پر جواہر لال نہرو نے سابق برطانوی وائسرائے ہند کو بھارت کا پہلا گورنر جنرل بنا یا ۔تقسیم ہند کے موقع پر انگریز گورنر پنجاب ایون جینکنز کیمطابق ریڈ کلف ایوارڈ 9 اگست کو اشاعت کیلئے تیار تھا لیکن مائونٹ بیٹن نے گورنر پنجاب کے پوچھنے پر بھی یہ بتانے سے گریز کیا کہ پنجاب میں پاکستان اور بھارت کی سرحد کہاں واقع ہو گی۔حقیقت یہی ہے کہ سردار پٹیل کا تو نہیں البتہ برطانوی حکومت ہند کے مقرر کردہ وائسرائے ہند کے سیاسی مشیر سر کونارڈ کور فیلڈ کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے جس میں وہ کہتے ہیں وائسرائے مائونٹ بیٹن برطانوی محکمہ سیاسی امور کے نسبت کانگریس کے لیڈروں کی بات کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ کورفیلڈ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے وائسرائے کو تجویز پیش کی تھی کہ کانگریس اور مسلم لیگ کے لیڈروں کو مسلمان حکمران کیساتھ ہندو آبادی والی ریاست حیدر آباد اور ہندو حکمران کیساتھ مسلمان اکثریت والی ریاست جموں و کشمیر پر سودے بازی کا موقع دیا جائے تاکہ دونوں ریاستیں قتل و غارت گری کے بغیر ہندوستان اور پاکستان میںشامل ہو جائیں لیکن جو کچھ بھی میں نے کہا ، نہرو کی جانب سے کشمیر کو بھارت میںرکھنے کی خواہش کے سامنے مائونٹ بیٹن نے میری ایک نہ سنی سردار پٹیل کی جانب سے ایسی کسی تجویز کا پیش کیا جانا اِس لئے بھی ناقابل فہم ہے کیونکہ سردار پٹیل انتہا پسند خیالات کے حامی تھے اور سرے سے پاکستان کے بننے ہی کیخلاف تھے ۔تقسیم ہند کا پروگرام سامنے آنے کے بعد سردار پٹیل نے انتہا پسند ہندوئوں کو مطلع کر دیا تھا کہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کیلئے تقسیم ہند کے منصوبے کو عارضی طور پر تسلیم کیا جانا ضروری تھا لیکن بھارت کی صبح آزادی کی دھوپ میں پاکستان شب کی شبنم کی طرح تحلیل ہو جائیگا ۔
درج بالا منظر نامے میں جناب حامد میر کی جانب سے سردار شوکت حیات کی خام یاداشت پر بھروسہ کرنا ناقابل فہم ہے۔حامد میر صاحب کا یہ کہنا بھی ناقابل فہم ہے کہ ،، اِسی لیاقت علی خان نے سیز فائر قبول کر لیا ، ، تو جناب میر صاحب ، قائد ملت لیاقت علی خان کو کیا کرنا چاہئیے تھا کیونکہ یہ فیصلہ تو اقوام متحدہ نے کیا تھا؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لیکر گیا تھا لیکن اقوام عالم میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں سیز فائر کیساتھ ساتھ سیز فائر کی مانٹرنگ کیلئے اقوام متحدہ کا ملٹری آبزرور گروپ بھی سیز فائر لائین پر تعینات کیا گیا تھااور واضح طور پر یہ کہا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان کیساتھ الحاق کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کرایا جائیگا جسے بھارتی وزیراعظم نہرو نے بھی تسلیم کیا تھا لیکن لیاقت علی خان کے سیاسی منظر نامے سے ہٹائے جانے کے بعد بھارت کشمیر میں رائے شماری کرانے سے مکر گیا ۔ اندریں حالات ، جناب حامد میر کیا آپ جیسے سینئر کالم نویس کیلئے بانیانِ پاکستان کی فکر و دانش پر بے محابا اور بغیر کسی وجہ کے اُنگلی اُٹھانا زیب دیتا ہے ۔ کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن کالم کی طوالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کے حوالے سے بانی ء پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے خلاف استعمال کی جانے والی ہرزہ سرائی پر آئندہ کالم میں گفتگو کی جائیگی ۔
بانیانِ پاکستان کیخلاف متنازع تحریریں
Oct 31, 2013