17 اکتوبر2013 میں آسٹریلیا کی تنظیم walk free foundationکاشائع کردہ انڈیکس بتاتاہے کہ دنیا میں آج بھی تقریبا 30ملین غلام موجود ہیں اور ان غلاموں کا 76%بالترتیب انڈیا ، چین ، پاکستان،نائجیریا ،ایتھوپیا،روس ،تھائی لینڈ،کانگو،برما اور بنگلہ دیش میں موجود ہے ۔ انڈیا غلاموں کی تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے اس وقت دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں 14ملین غلام موجود ہیں ،پھر چین میں 2.9ملین اور پاکستان میںغلاموں کی تعداد 2.1ملین ہے ۔ اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ آزادی کے نام پر جن دو ممالک نے خون کی نہریں بہا دیں اورعورتوں کی عصمتوں کو لُٹا دیاوہ آج بھی دنیا کے کُل غلاموں کا 54%اپنے اندر سموئے بیٹھے ہیں ۔ آزادی اور برابری کے انسانی حقوق کی جنگ یہ لڑی تو بار بار جارہی ہے مگر شائد جیتی نہیں جارہی اسی لئے تو آج بھی دنیا میں 30ملین لوگ غلام کے غلام ہیں اور دنیابھی ترقی کرتی جارہی ہے۔یعنی کچھ لوگ ابھی تک غاروں سے نہیں نکلے اور کچھ لوگ چاند تاروں تک پہنچ گئے ۔ایسا بے ہنگم توازن ہوتبھی تو اُلٹنے کا امکان رہتا ہے ، تبھی تو اس دنیا میں امن اور سکون کا کال ہے ۔
آبادی کے تناسب سے غلاموں کی تعداد دیکھی جائی تو mauritaniaپہلے نمبر پر جہاں کے لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ وہ غلام ابن ِ غلام ہیں اور حکومتی سطح پر یہ 1980میں یعنی دنیا میں قانونی سطح پر سب سے آخر میں اس لعنت کو ختم کرنے کے قانون بنانے والا ملک تھا۔مگر عملی طور پر آج بھی ا س ملک میں غلام کثرت سے موجود ہیں اور حکومت کی سر پرستی میں سب کچھ ہوتا ہے۔آبادی اور غلاموں کے تناسب کے لحاظ سے ہیٹی دوسرے نمبر پر ، پھر پاکستان اور اس کے بعد انڈیا ۔anti slavery کا قانون ہر ملک میں موجود ہے۔ پاکستان میں زندہ انسانوں کی بے حرمتی پر دوسرے انسان اس قدر خاموش ہیں کہ پچھلے بیس سالوں میں ایک بھی ایسا مقدمہ اس قانون کے تحت منظر ِ عام پر نہیں آیا ۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ غلامی موجود نہیں ہے ، وجہ یہ ہے کہ آگاہی کا فقدان ہے ۔ غلام ابنِ غلام ابن ِ غلام جاگیرداروں کی جاگیرداری چل ہی اسی وجہ سے رہی ہے اور اس کو مذید سمجھنے کے لئے غلامی کے جدید مفہوم سے آشنائی ضروری ہے جس کے مطابق "کسی کی شخصی آزادی مسخ کر کے اُسے اپنی ملکیت اور قابو میں اس نیت سے رکھنا کہ ان کا ناجائز ، غیر قانونی ،استعمال کیا جا سکے اور بوقت ضرورت انہیں کسی کے حوالے کر دیا جائے یا ساری عمر اسی حالت میں اپنے پاس رکھا اور استعمال کیا جاسکے ۔ یعنی انسانوں کو دوسری اشیاء کی طرح سمجھا اور برتا جائے اور یہ سب کرنے کے لئے تشدد ،طاقت ‘ خوف اور دبائو استعمال کیا جائے ـ"
دی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی پچھلے سال کی رپورٹ کی مطابق 20.9ملین دنیا میں غلام تھے ۔ اس میں انسانی سمگلنگ ، جبرمشقت کروانی ، قرضوں میں دبے لوگوں کا استحصال کرنا وغیرہ شامل تھے مگر اس حالیہ انڈیکس میں غلامی کی تعریف کو پھیلا کر اس میں زبردستی کی شادی ، بچوں اور عورتوں کی exploitation بھی شامل کر دی گئی ہے ۔
ہوٹلوں میں کام کرتے گالیاں کھاتے بچے ، سڑکوں پر بھیک مانگتے بچے ، گھروں میں کام کرتے بچے ،فیکٹریوں ملوں میں کام کرتے بچے،جسم بیچتی عورتیں اور بچے ،فیکٹریوں میں بُرے حالات میں کام کرتے مزدور ، کبھی زندہ جل جاتے ہیں اور کبھی کئی کئی گھنٹے کام کرنے کے باوجود بھوک سے مر جاتے ہیں ، خاندان کے خاندان مفلسی سے مجبور خود کشی کر لیتے ہیں یہ سب غلامی کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں جو ہمارے اردگرد پھر رہی ہیں اور ہم اس کے خلاف کبھی جلوس نہیں نکالتے کبھی ٹائر نہیں جلاتے کبھی بازئوں پر کالی پٹی نہیں باندھتے ۔ہم دیکھتے ہیں اور اسے اپنے ملک کی ثقافت کا سیاست کا ایک حصہ سمجھتے ہیں اور آگے کو چل پڑتے ہیں ۔زندہ انسانوں کی بے حرمتی پر ہمارے احساسات مردہ ہوچکے ہیں ۔
کینڈا ،امریکہ جیسے ترقی یافتہ اور انسانی حقو ق کے علمبردار ممالک میں بھی بہت کم سہی مگر انسانوں کا استحصال ہورہا ہے جسے ہم غلامی کی جدید تعریف کے مطابق پرکھیں تو کہا جاسکتا ہے کہ غلامی یہاں سے بھی گئی نہیں،یہmigrant workers کی شکل میں موجود ہے ۔ جب لوگ عموما دو سال کے و رک پرمٹ پر ادھر آتے ہیں تو قانون کے مطابق ایک ہی مالک جس نے انہیں بلایا ہوتا ہے اور اس کا نام ان کے پرمٹ پر ہوتا کے ساتھ اتنا عرصہ کام کرنے کے پابند ہوتے ہیں مذید رہائش ، ٹرانسپورٹ اور کھانے کے لئے مالک کے محتاج ہوتے ہیں ۔2008کیوبک کینڈا میں ٹماٹر فارم پر اپنے70 ساتھیوں کے ساتھ کام کرنے والے آرتیگا (Arteaga)کو ایک دن اس جرم میں ورک پرمٹ کی مدت ختم ہوئے بغیر کینڈا سے نکال دیا کہ اس نے اپنے بیمار ساتھی کو ہسپتال بھجوانے پر ضد کی تھی ۔ اس کا ایک ساتھی جب شدید بیمار پڑ گیا اور مالک نے ہسپتال بھجوانے کی بجائے اسے مزدورں کو لانے لیجانے والی بس میں ہی بٹھا چھوڑا تو آرتیگا نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر چھوٹی سی ہڑتال کی ،جس کے نتیجے میں بیمار ساتھی تو ہسپتال چلا گیا مگر اسے کینڈا سے نکال دیا گیا ۔اسی طرح انڈین پاکستانی ، بنگالی اور چائینز سٹورز پر ورک پرمٹ ہولڈر لوگوں کا استحصال زیادہ گھنٹے اور کم پیسوں کی ادائیگی ،ایک ہی مالک کے ساتھ بندھے رہنے کی وجہ سے ممکن ہورہا ہے ۔
یہی کام سعودی عرب میں قاما کے نام پر ہورہا ہے ۔ کمپنی ملازم کے ٹریول ڈاکومنٹس ، پاسپورٹ وغیرہ اپنے پاس رکھ لیتی ہے ۔ مراعات جتنی بھی زیادہ ہوں ، پیچھے اپنے ملک میں کوئی ایمرجنسی ہوجائے ، آپ وہاں پہنچ نہیں سکتے ۔ جدید نظام ِ زندگی میں انسانوں کے پائوں میں باندھنے والی جدید بیڑیاں ۔ نچلے درجے کے کھلم کھلا استحصال سے لے کر ڈھکے چھپے استحصال تک یہ سب غلامی کی شکلیں ہیں ۔
انڈیکس میں سر ِ فہرست آنے والے ممالک میں غربت ، مہنگائی ،جہالت اور کرپشن مشترکہ عناصر ہیں ۔یہ سب چیزیں مل کر ظالم بھی پیدا کرتی ہیں اور بے آواز ، بے پر اور بے طاقتے ظلم سہنے والے کیڑے مکوڑے بھی ۔۔۔جنہیں صرف کہنے کو ہی انسان کہا جاتا ہے جو حکمران ملک کی معیشت اور تعلیم ٹھیک نہیں کر سکتے میرے حساب سے انہیں حاکم رہنے کا کوئی حق نہیں ۔ انہیں غلاموں کے اس انڈیکس کو دیکھ کر ہی مستعفی ہوجانا چاہیئے ۔