مشرف اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے : جنرل شاہد عزیز !
اپنے آپ کو جدید اور لبرل کہلانے کا شوق تو ویسے ہی سابق صدر مشرف کو بہت تھا البتہ تاریخ میں اپنا نام امر کرنے کیلئے اس قسم کی اوچھی حرکت کا تو کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا وہ بھی اس وقت تک جب تک مسئلہ فلسطین حل نہ ہو جائے۔ ہماری اسرائیل سے کوئی ذاتی دشمنی تو نہیں ہم صرف انسانیت اور عالمی امن کے نام پر مسلمان فلسطینی بھائیوں کی آزادی اور ان کے وطن سے غاصبانہ قبضہ ختم کرانے کیلئے انکی جدوجہد میں انکا ساتھ دے رہے ہیں۔
ویسے بھی سابق صدر مشرف کو نت نئے متنازعہ کام کرنے کا بہت شوق تھا۔ سانحہ لال مسجد ہو یا اکبر بگٹی کا قتل، کارگل کا مسئلہ ہو یا تقسیم کشمیر کے منصوبے یا ججوں کی برطرفی و نظر بندی اس قسم کے ’’احمقانہ ایڈونچرز‘‘ سے مشرف دور کی تاریخ بھری پڑی ہے پھر جب حالات نے پلٹا کھایا اور مشرف خود ملک بدر ہوئے تو عوام نے سوچا اب اس سے نجات مل گئی مگر شامتِ اعمال نے مشرف کو دوبارہ پاکستان پہنچایا اور اب وہ اپنے سیاہ کرتوتوں کے باعث اپنی جیل قرار دی گئی رہائش گاہ پر پے در پے ضمانتوں کے بعد جلد ہی ملک سے دوبارہ اُڑنے کا سوچ رہے ہیں۔ ہمارا تو ان کو بھی مشورہ ہے کہ وہ جیسے ہی ضمانتوں کے بعد رہائی کا پروانہ حاصل کریں۔ سیدھا اسرائیل چلے جائیں وہاں ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا اور اسرائیل دوستی میں ان کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے انہیں اسرائیل کی شہریت بھی مل سکتی ہے۔ یا پھر حکومت خود ہی مشرف کو اسرائیل بدر کر دے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭پاکستان چاہے تو ڈرون حملے بند ہو جائیں : امریکی رکن کانگریس ایلن گرلیسن !
بات تو امریکی سینٹر نے سو فی صد درست کی ہے مگر کیا کِیا جائے اس بے حمیتی کا جو ہمارے حکمرانوں کے دل و دماغ میں رچ بس گئی ہے بقول اقبال ؒ …
’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘‘
کہیں سے کوئی آواز اگر اُٹھتی بھی ہے تو وہ احتجاج کی بجائے پُرسوز اپیل معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے سابق حکمرانوں نے اگر امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دے ہی رکھی ہے تو موجودہ حکمرانوں کو کیا ہُوا وہ تو محبِ وطن اور شیر بہادر کہلاتے ہیں وہ اس در اندازی پر صرف ’’رحم کی اپیلیں‘‘ کیوں کر رہے ہیں وہ ڈرون حملوں کی اجازت منسوخ کیوں نہیںکر دیتے۔ ایک بار ایسا کرکے دیکھیں بخود امریکہ کے ہوش خودبخود ٹھکانے آ جائیں گے۔کم از کم عوام کو محسوس تو ہو کہ ان کے حکمران واقعی بہادر ہیں ورنہ انہیں تو اب ان کا انتخابی نشان شیر بھی امریکہ سامنے کھڑی ’’بھیگی بلی‘‘ نظر آ رہا ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
اسلام آباد میں آجکل امن کی آشا پھڑپھڑا رہی ہے۔ کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھارت سے آئے ہیں ان کی آنکھوں کو وہی کچھ دکھایا جا رہا ہے جو کچھ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ امن کی ٹریفک کبھی یکطرفہ نہیں چلتی یہ تو دلوں کا معاملہ ہے دونوں طرف سے آمادگی ضروری ہوتی ہے مگر یہاں تو امن کی آشا ہو یا امن کی بحالی، تعلقات میں تجارت میں یا آمد و رفت میں بہتری سب جگہ صرف بھارت کی برتری اور پاکستان کی کمتری کا احساس چھایا نظر آتا ہے۔ کنٹرول لائن پر آئے روز کی گولہ باری، پاکستانیوں کی ہلاکتیں ہوں یا بلوچستان میں تخریب کاری سب جگہ ہمارے اس پڑوسی کا نام آ رہا ہے جو ہمیں امن کی آشا کے سپنے دکھا کر مدہوش رکھنا چاہتا ہے تاکہ اسی غفلت میں رکھ کر وہ ہمیں مار سکے۔ کیا امن کی آشا کا مقصد یہی ہے کہ طاقتور کو کھلی چُھٹی دی جائے کہ وہ اپنے ہمسائے کا جینا محال کرے اور ہمسائے کو امن کے نام پر بے وقوف بنایا جائے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ امن کی آشا کے ان سفیروں کو خودکش حملوں، بم دھماکوں اور بھارتی فوج کی گولہ باری سے متاثرہ خاندانوں سے ملوایا جائے تاکہ وہ واپس جا کر امن کی حقیقی آشا کا پرچار کرتے ہوئے اور اپنے ملک بھارت پر زور ڈالیں کہ وہ پاکستان کا امن برباد نہ کرے اور پاکستانیوں کو بھی امن سے رہنے کا حق دے۔ جب تک بھارت اپنی پاکستان دشمن پالیسیاں نہیں بدلتا مسئلہ کشمیر اور پانی کی تقسیم جیسے مسائل حل نہیں کرتا۔ امن کی آشا کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭مسلمانوں کو اکثریت بننے سے روکنے کیلئے ہندو زیادہ بچے پیدا کریں : آر ایس ایس !
جنونی ہندوئوں کی طرف سے خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف یہ مہم بھارتی حکمرانوں اور خاندانی منصوبہ بندی کے محکمہ کیلئے خاصی تشویشناک ہو سکتی ہے کیونکہ بھارت سرکار پہلے ہی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے برتھ کنٹرول کیلئے نت نئے اشتہارات شائع کر رہی ہے۔ اب آر ایس ایس کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خوف لاحق ہے حالانکہ اسلام صرف زیادہ بچے پیدا کرنے سے ہی نہیں پھیلتا بلکہ لاکھوں افراد اپنی خوشی اور مرضی سے اسلام کے دامن میں پناہ لیتے ہیں یوں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے۔
ورنہ یادشِ بخیر اندرا گاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی نے تو ’’جبری نس بندی‘‘ مہم کے دوران لاکھوں مسلمان نوجوانوں کی نس بندی کر کے اپنی طرف سے مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر تاریخ گواہ ہے ان منفی اقدامات سے مسلمانوں کی آبادی پر کوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ …
’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘
باقی رہی بات راشٹریہ سیوک سنگھ کی تو اب دیکھتے ہیں کہ بھارتی حکومت جو کم بچے پیدا کرنے کی پالیسی بڑے زور شور سے چلا رہی ہے وہ کیا ایکشن لیتی ہے ان کے اس بیان پر ۔