اسلام آباد (وقائع نگار + نوائے وقت نیوز) ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد نے لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالرشید غازی کے قتل کے مقدمے میں سابق صدر پرویز مشرف کی ضمانت پر رہائی کے مقدمے میں فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف دائر درخواست کی سماعت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد واجد علی کی عدالت میں ہوئی۔ عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو وکیل صفائی نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ لال مسجد آپریشن کا حکم سابق صدر پرویز مشرف نے نہیں دیا۔ پرویز مشرف کے وکیل الیاس صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ لال مسجد آپریشن سے قبل اسلام آباد سے ملکی و غیر ملکی شہریوں کو اغوا کیا جارہا تھا پولیس ریکارڈ کے مطابق لال مسجد آپریشن کے حوالے سے پرویز مشرف کی جانب سے کوئی حکم دیا گیا نہ ہی آرڈر کا پولیس کے پاس کوئی ریکارڈ موجود ہے۔ پولیس کو میرے موکل کے خلاف عبدالرشید غازی سمیت دیگر افراد کے قتل کا کوئی گواہ نہیں ملا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ لال مسجد آپریشن کے دوران فوج اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے طلب کی تھی اور ڈپٹی کمشنر کے اس حکم کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ اس آپریشن میں 11 فوجی جوان بھی شہید ہوئے۔ شہدا فاﺅنڈیشن کے وکیل طارق اسد نے موقف اختیار کیا کہ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر سے گن پوائنٹ پر فوج طلب کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ عبدالرشید غازی کو قتل کرنے کا حکم خود جنرل (ر) پرویز مشرف نے دیا۔ پولیس نے اس کیس میں اہم شہادتوں کو نظرانداز کردیا ہے۔ پرویز مشرف نے آئین پامال کیا قوم کو کئی برس یرغمال بنائے رکھا۔ پرویز مشرف کے کونسل نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے موکل کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا جائے جس کے بعد فاضل عدالت نے مذکورہ کیس پر فیصلہ یکم نومبر تک محفوظ کر لیا۔ پرویز مشرف کے وکیل الیا س صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ لال مسجد آپریشن سے سابق صدر کا کوئی تعلق نہیں، انہوں نے کہا کہ پولیس رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ لال مسجد آپریشن سے سابق صدر کا کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہی انہوں نے آپریشن کے احکامات جاری کئے تھے۔ لہذا سابق صدر کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے انکی درخواست ضمانت منظور کی جائے۔ لال مسجد کے وکیل مولانا محمد وجیہ اللہ خان ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف کی درخواست ضمانت کا فیصلہ چند دن نہ کیا جائے کیوں کہ ہم نے پولیس کو گواہ پیش کرنے ہیں ویڈیو بھی جمع کرانی ہے جس میں واضح ہو جائے گا کہ پرویزمشرف نے ہی لال مسجد آپریشن کے احکامات جاری کئے تھے۔ لال مسجد کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے ق لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین، سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق اور سابق وزیر مملکت طارق عظیم کو بھی گواہی کے لئے پیش کرنا ہے جن کے سامنے پرویز مشرف نے لال مسجد آپریشن کا حکم جاری کیا تھا جس پر ایڈیشنل سیشن جج نے کہا کہ ہم نے تو صرف درخواست ضمانت کا فیصلہ کرنا ہے گواہوں کے بیان قلم بند کرانے کے لئے آپ مذکورہ عدالت سے رجوع کریں۔ لال مسجد کے وکیل کے اصرار پر عدالت نے بحث مکمل کرتے ہوئے درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر دی اور ریمارکس دیئے کہ آئند ہ سماعت پر بحث نہیں ہو گی صرف فیصلہ سنایا جائے گا۔ دریں اثنا پولیس نے پرویز مشرف کا نام بے گناہوں کے خانے میں ڈال دیا ہے۔ نجی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اسلام آباد پولیس نے عبدالرشید غازی قتل کیس کے چالان میں سابق صدر پرویز مشرف کا نام خانہ نمبر 2 میں ڈال دیا ہے، اس خانے میں ان ملزموں کے نام ڈالے جاتے ہیں جو بے گناہ ثابت ہوں یا مقدمے میں براہ راست ملوث نہ ہوں، پرویز مشرف کے خلاف چالان میں کہا گیا ہے کہ مدعی مقدمہ دوران تفتیش پرویز مشرف کے خلاف کوئی ثبوت یا چشم دید گواہ پیش نہیں کرسکا۔ لا ل مسجد آپریشن کا کوئی تحریری حکم نامہ بھی موجود نہیں، فوج اور وزارت داخلہ کے ساتھ خط و کتابت کو بھی چالان کا حصہ بنایا گیا ہے 2007ءمیں مولانا عبدالعزیز اور عبدالرشید غازی کے خلاف درج ایف آئی آر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ چالان میں کہا گیا ہے کہ ٹھوس ثبوت یا چشم دید گواہ نہ ہونے پر ملزم کو عدالت کی صوابدید پر خانہ نمبر 2 میں رکھا گیا ہے۔
غازی رشید قتل کیس‘ پولیس نے مشرف کو تفتیش میں بے گناہ قرار دیدیا‘ درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ‘ کل سنایا جائیگا
Oct 31, 2013