امریکہ اور برطانیہ مسئلہ کشمیر کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں: نوازشریف

لندن (نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت بداعتمادی سے دفاعی اخراجات میں اضافہ ہوا، پاکستان بھارت سے تصفیہ طلب معاملات کا امن پسندانہ حل چاہتا ہے، مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل کیلئے تینوں فریقین کا متفق ہونا ضروری ہے،حکومت کا کام کاروبار اور سرمایہ کاری کیلئے قانون سازی کرنا ہے، کاروبار صرف نجی سیکٹر کو کرنا چاہئے۔ وہ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ سے ملاقات میں گفتگو کر رہے تھے۔ ملاقات میں خطے میں سکیورٹی سے متعلق امور پر بات چیت ہوئی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں دفاعی اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ دونوں ممالک میں مقابلہ بازی کا رجحان ختم ہونا چاہئے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات کو حل کیا جائے جن میں سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کا ہے۔ وزیراعظم نے ولیم ہیگ کے ساتھ تعاون، خطے میں سلامتی اور دہشت گردی کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرینہ مسائل کے حل میں برطانوی حکومت کے کردار کو سراہا، وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان چھ دہائیوں پر محیط عدم اعتماد سے دفاعی شعبے پر کثیر اخراجات کرنا پڑے جس سے سماجی شعبہ نظرانداز ہوا۔ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے اور اس حوالے سے تمام تر تعاون کرنے کو تیار ہے۔ انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مؤثر بارڈر مینجمنٹ سسٹم کی ضرورت پر زور دیا تاکہ سرحد کے آر پار ہونے والی دراندازی کے مسئلہ کو حل کیا جاسکے۔ برطانوی وزیرخارجہ نے پاکستان بھارت اور افغانستان کے درمیان تمام تصفیہ طلب مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی پالیسی کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے ساز گار ماحول فراہم کرنے سے متعلق پاکستان کی کوششوں کے معترف ہیں۔ پاکستان پر امن و مستحکم افغانستان کا حامی ہے، افغان مفاہمی عمل کی کامیابی کیلئے ہر ممکن تعاون کرینگے،کسی ملک کی سرزمین کسی دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے، معاشی بہتری کیلئے کوئی فوری حل موجود نہیں متبادل کوششیں کی جارہی ہیں، حکومت خسارے میں چلنے والے اداروں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی ، سرکاری محکموں میں کرپشن، بد انتظامی اور افرادی قوت کے اضافی بوجھ کو ترجیح بنیادوں پر حل کرینگے، اگلے پانچ سال میں تعلیمی بجٹ 4 فیصد تک لے جائینگے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے برطانیہ کے خارجہ، داخلہ امور اور بین الاقوامی ترقی کے وزرا سے الگ الگ ملاقات کے دوران کیا۔ ولیم ہیگ نے بھارت اور افغانستان کے ساتھ پرامن طریقے سے مسائل حل کرنے سے متعلق وزیراعظم کی پالیسی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ مسائل کے حل کیلئے ساز گار ماحول فراہم کرنے سے متعلق پاکستان کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔ برطانیہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہر سطح کی بات چیت کا خیرمقدم کرتا ہے۔ برطانوی وزیر داخلہ تھریسامے کے ساتھ ملاقات کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا پختہ عزم کر رکھا ہے۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس کے نفاذ کا مقصد ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے سکیورٹی امور میں تعاون اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جائزہ لیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں برطانیہ کے تعاون کی تعریف کرتے ہوئے تھریسامے کو پاکستان کی دوست قرار دیا، پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے قانون سازی اور دیگر اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں ان میں آزادانہ وفاقی پراسیکیوشن سروس قائم کرنا، عدالتوں میں الیکٹرانک شواہد پیش کرنا، مشترکہ تفتیشی ٹیمیں متعارف کرانا اور ہائی سکیورٹی خصوصی جیلوں کا قیام شامل ہے۔ تھریسامے نے پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے نئی قانون سازی اور حکومت کے مختلف اقدامات کو سراہا۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ برطانیہ پاکستان کی بھاری جانی و مالی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ انہوں نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وزیراعظم کو برطانیہ کے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ مزید برآں برطانوی حکومت نے پاکستان میں ہونے والی ٹیکس ریفارمز کی تعریف کی ہے۔ ڈویلپمنٹ منسٹر جسٹن گریننگ نے کہا ہے کہ ٹیکس نظام سختی سے نافذ کیا جانا چاہئے۔ پاکستان کی اپنی معیشت پر گرفت مضبوط ہونی چاہئے۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ حکومت کا کام کاروبار اور سرمایہ کاری کے لئے قانونی سازی کرنا ہے، حکومت کا کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے، کاروبار صرف نجی سیکٹر کو کرنا چاہئے۔ دریں اثناء میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ مسئلہ کشمیر کے حل میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت 65 سال میں یہ مسئلہ ازخود حل نہیں کرسکے، ڈرون حملوں کیخلاف فضا بنانے میں اہم کردار ادا کیا، سہ فریقی مذاکرات میں افغانستان کے مسئلے پر کھل کر بات ہوئی۔ افغانستان پاکستان میں دراندازی روکنے کیلئے اقدامات کرے۔ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے اور اس حوالے سے تمام تر تعاون کرنے کو تیار ہے۔ انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان موثر بارڈر مینجمنٹ سسٹم کی ضرورت پر زور دیا تاکہ سرحد کے آر پار ہونیوالی دراندازی کے مسئلہ کو حل کیا جا سکے۔ پاکستان کو خون خرابے سے نجات دلانے کی کوشش کر رہے ہیں، پاکستان بھارت دیرینہ مسائل حل کرانے کے لئے برطانوی حکومت کی مسلسل حمایت لائق تحسین ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے پاکستان کے دشمن کو اپنا دشمن قرار دیا ہے، پاکستان میں استحکام کیلئے افغانستان میں امن ضروری ہے، مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے تیسرے فریق کا تعاون ضروری ہے، ہم بھارت سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، دورہ امریکہ میں بھی کشمیر کے مسئلے پر بات ہوئی، امداد کی بجائے تجارت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ برطانوی وزیراعظم سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ برطانیہ پاکستان کے معاملات کو بڑی اہمیت دیتا ہے، برطانیہ ہمیشہ پاکستان کا دوست رہا ہے، سہ فریقی مذاکرات کا اصل مقصد خطے میں امن لانا ہے، پاکستان کی خودمختاری پر ضرب لگانے والی کوئی بھی چیز برداشت نہیں کریں گے۔ نوازشریف نے کہا کہ ملکی خودمختاری پر کوئی زد قبول کرنے کو تیار نہیں، دہشت گردی اور خون خرابہ روکنا ہر شہری کی خواہش ہے، پاکستان اور بھارت 65 سال میں دوطرفہ طور پر مسئلہ کشمیر حل نہیں کرپائے ، تیسرے فریق کی مداخلت کو مسترد کرنا مسئلہ کو ٹالنے والی بات ہے، بھارت کو کیا ہچکچاہٹ ہے، امریکہ اور برطانیہ سے امداد نہیں تجارت چاہتے ہیں اور برطانوی حکام سے اس حوالے سے انتہائی مفید بات چیت ہوئی ہے، برطانیہ نے انسداد دہشت گردی فورس کے قیام میں ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور دیگر وزرا سے ملاقاتیں بہت اچھی رہیں۔  برطانیہ پاکستان کا ہمیشہ سے اچھا دوست رہا ہے، ہماری دوستی دن بدن مضبوط ہورہی ہے۔ برطانیہ پاکستان کے معاملات کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ ولیم ہیگ سے مسئلہ کشمیر سمیت دیگر تمام امور پر بات چیت ہوئی، باہمی تعاون کے فروغ پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ترقی کی وزیر سے بھی اچھی بات چیت ہوئی برطانیہ تعلیم میں پاکستان کی بڑی مدد کررہا ہے۔ تھریسامے سے انسداد دہشت گردی فورس کے قیام کے بارے میں بات چیت ہوئی، انہوں نے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ پاکستان افغانستان اور برطانیہ کی سہ ملکی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا ہے، کرزئی سے ملاقات ہوئی افغانستان میں پرامن انتخابات ہونے چاہئیں۔ وہاں امن ہوگا تو اس سے پورے خطے کو فائدہ ہوگا۔ ڈرون حملوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی خودمختاری کیخلاف کوئی اقدام بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ کوئٹہ میں دھماکے افسوسناک ہیں، اسکی تفصیلات معلوم کر رہے ہیں ہم بھی یہی چاہتے ہیں، یہ سلسلہ رک جائے خون خرابہ اور لوگوں کے جان و مال کا ضیاع روکیں، مسئلہ کشمیر پر بھی امریکہ اور برطانیہ کے حکام سے بات چیت ہوئی ہے، لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کے بارے میں بھی بات ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سے تجارت، کاروبار اور اقتصادی تعاون کا فروغ چاہتے ہیں، ہم نے بہت پیسہ غیر ضروری سازوسامان پر خرچ کیا، یہ پیسہ تعلیم، صحت اور سماجی شعبے پر خرچ ہوتا تو آج کہیں اور ہوتے۔ 65 سال کے بعد بھی حالات ٹھیک نہ کر سکے تو اسکے ذمہ دار ہم خود ہوں گے۔ دریں اثنا نوازشریف سے کوسوو کی صدر عاطیفتی جاہجگا نے ملاقات کی اور تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے پر نوازشریف کو مبارکباد دی۔ ملاقات کے دوران دونوں رہنمائوں نے دوطرفہ تجارت، دوہرے ٹیکسوں سے گریز اور سماجی شعبہ کی ترقی کیلئے اکٹھے ملکر کام کرنے کا عزم کیا۔ کوسوو کی صدر عاطیفتی جاہجگا نے وزیراعظم نوازشریف کو کوسوو کا دورہ کرنے کی دعوت دی جو کہ انہوں نے قبول کرلی۔ وزیراعظم نوازشریف نے بھی کوسوو کی صدر عاطیفتی جاہجگا کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی جو کہ انہوں نے قبول کر لی۔ وزیراعظم نے کوسوو کو او آئی سی میں شمولیت کی حمایت کا یقین دلایا۔ 

ای پیپر دی نیشن