ڈالرنگ ، ڈارلنگ

ڈالرنگ ، ڈارلنگ

نواز لیگ نے توانائی، دہشت گردی اور لاقانونیت جیسی ابتلاﺅں میں مبتلا ریاست کی پشت پر سواری شروع کی تو انرجی کرائسز کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا، دوسری ترجیح دہشت گردی سے نجات تھی ۔ سردیوں کا آغاز ہو چکا، کل یکم نومبر ہے۔ اکثر گھروں، کاروباری مراکز اور دفتروں کے اے سی بند ہو چکے ہیں۔ حکومت نے آتے ہی 480 ارب روپے کا گردشی قرض بھی چکا دیا تھا لیکن لوڈشیڈنگ کا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ آج کی خبر ملاحظہ فرمائیے ”موسم کی صورتحال میں بہتری کے باوجود بجلی کا شارٹ فال بڑھ کر 3200 میگا واٹ سے تجاوز کر گیا۔ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا دورانہ 10 سے 14 گھنٹے تک پہنچ گیا۔ این ٹی ڈی سی حکام کے مطابق مجموعی طلب 12800 جبکہ پیداوار 9500 میگاواٹ کی کم ترین سطح پر آ گئی۔“خدا نخواستہ انرجی بحران کا خاتمہ اگر پہلی ترجیح نہ ہوتا تو کیا ہوتا! دوسری ترجیح بھی اسی طرح سسک رہی ہے ۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات پر امریکہ سے اجازت ، برطانیہ سے آشیرباد لی جا رہی ہے۔ نواز شریف نے شام کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ذمہ داری وزیر داخلہ چودھری نثار کے سپرد کی تو انہوں نے جادو کی چھڑی لہرائی اور شام ڈھلے خوشخبری سُنا دی کہ ہوم ورک مکمل کر لیا‘ مذاکرات جلد شروع ہوں گے۔ اُدھر مولانا فضل الرحمن کی اُچھل کود قابل دید ہے، وہ جان کیری کی موجودگی میں افغانستان گئے واپسی پر بڑے فخر سے خوشخبری سنائی ” ہم نے افغان امریکہ معاہدہ نہیں ہونے دیا۔“ اب اس دورے کو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اپنے کردار سے منسلک کر رہے ہیں۔ کسی نے کہا کہ فضل الرحمن ”مولوی “ نہ ہوتے تو سب سے بڑے سیاستدان ہوتے۔ ایک شاعر انڈیا گئے کسی نے انہیں غالب سے بڑا شاعر کہا تو انہوں نے یقین کر لیا۔ ایک اور شاعر کو ایران میں کسی نے حافظ شیرازی کے ہم پلہ قرار دیا تو وہ اسی زعم میں مبتلا ہو گئے۔ مولانا خود کو ”غیر مولانا“ کی شرط پوری کئے بغیر سب سے بڑا سیاستدان سمجھ رہے ہیں۔ ان کا چہرے اور سر سے کلین شیو نیا ترجمان دنیا کو شاید یہی باور کرا رہا ہے کہ ہم اتنے بھی ”مولانا“ نہیں ،آزما کر تو دیکھو۔ وہ اپنی اہمیت بڑھانے، سیاست کو چار چاند لگانے اور وزارتیں پانے کے درپے جبکہ نواز شریف انہیں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا پُل سمجھ بیٹھے ہیں۔ آج ہی حکیم اللہ محسود نے کہا ہے ” جنگ بندی ڈرون حملوں کے خاتمے سے مشروط ہے اور ڈرون حملے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہو رہے ہیں۔“ امریکی رکن کانگریس گرے سن نے یہی بات ذرامختلف انداز میں کہی ” ڈرون حملے غیر قانونی ہیں لیکن پاکستان کی رضا مندی کے بغیر نہیں ہو سکتے ۔ میاں نواز شریف کے امریکہ کے دورے کے موقع پر امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا ”دورے کا ایجنڈا ڈرون نہیں معیشت ہے۔“ یہی طالبان نے ان الفاظ میں کہا تھا ” نواز شریف ڈرون حملے بند کرانے نہیں امداد کیلئے امریکہ گئے ہیں۔“ وزیراعظم نواز شریف امریکہ سے لندن آئے تھوڑی سی ریسٹ کے بعد پاکستان تشریف لائے اور ویک اینڈ گزار کر پھر برطانیہ چلے گئے۔ جہاں فرمایا” طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے جب بھی بات آگے بڑھتی ہے کوئی واقعہ ہو جاتا ہے۔“ اب کیا گارنٹی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہو گا؟ فریقین مخلص ہوں تو کوئی واقعہ رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ مذاکرات کیلئے قوم ایک پیج پر ہے نہ فوج مذاکرات کی حامی۔ ایسے مذاکرات کا کیا آغاز ہو گا اور کیا اختتام!!۔ ان حالات میں معالات کو خوش اسلوبی سے لیکر آئے بڑھنا اور منطقی انجام تک پہنچانا ہی سیاسی قیادت کی اہلیت کی آزمائش ہے کئی حلقوں کے نزدیک اس سے حکمران عاری ہیں جس کا ثبوت ان کی خود مقررکردہ ترجیحات کا حال ہے۔ البتہ پھرتیوں پر نظر ڈالی جائے تو اس میں مہارت کا آپ کو قائل ضرور ہونا پڑیگا۔ میاں نواز شریف لندن میں اور برادر خورد برلن میں پائے جاتے ہیں وہ بھی اس موقع پر والد محترم کی برسی تھی۔ کسی صحافی نے خودکار خبر لگا دی کہ 29 ستمبر کو برسی شایان شان طریقے سے رائیونڈ میں منائی جائیگی۔ جس میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف بھی شریک ہوں گے۔ برسی شایان شان طریقے سے نہیں عقیدت و احترام سے منائی جاتی ہے۔ شریف فیملی کے ہاں ابّا جی کا بدرجہ اتم احترام پایا جاتا تھا، وہ بڑے بڑے فیصلوں کو ایک ناں میں مسترد کرتے تو اس پر عمل ہوتا۔ قوم آج مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور بحرانوں کا رونا روتے ہوئے واوایلا کر رہی ہے کہ نواز لیگ اپنے وعدے بھول گئی۔ عوام کا گِلہ بے جا یوں کہ جو لوگ اقتدار کی چکا چوند اور غلام گردشوں میں گم ہو کر اپنے دیوتا جیسے والد کی برسی بھول گئے ان کیلئے یہ عوام کس باغ کی مولی ہیں۔ انہوں نے تو خیر برسی کو بھلایا ہے امیر حیدر ہوتی زندہ جاوید والد اعظم ہوتی کے خلاف اے این پی کے مو¿قف کا پرچم لہرا رہے ہیں۔اے این پی کی قیادت سیاسی آلائش کی چھینٹوں سے باپ بیٹے کے رشتہ کے تقدس کو داغدار نہ کرتی تو بہتر تھا تاہم امیر حیدر مُنہ میں چوسنی نہیں عقلِ سلیم رکھتے ہیں ،اسے استعمال کر لیتے۔ انہوں نے گھر کے کپڑے سرعام دھونے کا فیصلہ نجانے کیا سوچ کر ہی کیا۔
لوگ سوال کرتے ہیں کہ آخر نواز شریف صاحب کا مشیر خاص کون ہے؟ وہ کس کی مانتے ہیں کہ معاملات سلجھانے کا سرا ہاتھ نہیں آرہا۔ جواب عجب طرح کے ملتے ہیں۔ ایک نے اہلیت کو موضوع بنایا کہ موجودہ وسائل کو بروئے لا کر بحرانوں کے خاتمے کو ہی اہلیت و قابلیت کہتے ہیں، ٹیکس لگا کر مال دولت جمع کر کے تو نتھوخیراامور چلا لے گا لیکن یہاں تو بے تحاشا ٹیکس لگا کر بھی کہیں ریلیف نظر نہیں آتا۔ کسی نے کہا آجکل میاں صاحب کے سو رتن ہیں نہ نو رتن، ان کے تین دُلارے اور پانچ پیارے بھی نہیں البتہ سات ستمگرضرور ہیں لیکن ان کا میاں صاحب کو گائیڈ یا مس گائیڈ کرنے میں کوئی ہاتھ نہیں۔ میاں صاحب کیلئے آج ایک ہی شخص سقراط، بقراط اور افلاطون ہے۔ اوپر کارسازِزمانہ ربّ پروردگار اور نیچے وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہے۔ڈار صاحب کی طبیعت میں ڈالرنگ کا عنصر بدرجہ اتم پایا جاتا ہے، قرض دینے والے ممالک اور اداروں کے لئے وہ ڈارلنگ ہیں۔عوام ڈالرنگ اورڈارلنگ کے درمیان پس سے گئے ہیں۔ اگر میاں صاحب اسحاق ڈار کے سحر سے باہر نہ آئے تو نواز لیگ کی سیاست مزید نفرت کا نشانہ بن سکتی ہے۔ شاید اسی خوف سے بلدیاتی انتخابات کے غیر جماعتی بنیادوں پر انعقاد کیلئے کمر باندھ رکھی ہے۔ پرسوں مشرف کی غازی عبدالرشید کیس میں ضمانت کل ملک سے پُھر ہونے کا بھی امکان ہے ۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...