شاہ نواز تارڑ
آپ کا جسد خاکی میانوالی جیل میں ہی دفن کر دیا گیا اور جنازہ پڑھنے کی اجازت نہ دی گئی یکم نومبر 1925ءکو خبر لاہور پہنچی تو بچہ‘ بوڑھا‘ جوان ہر فرد غازی اور شہید کے جسد خاکی کی واپسی کیلئے گھر سے نکلا تو حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے علامہ اقبالؒ اور سر محمد شفیع کی کوششوں اور لاہور میں امن و امان بحال رکھنے کی یقین دہانی پر جسد خاکی لاہور لایا گیا۔ لاہور کے ایک مجسٹریٹ مہدی حسن میانوالی سے نعش لے کر لاہور پہنچے۔ چوبرجی گرا¶نڈ میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ کہتے ہیں اس وقت لاہور کی آبادی ڈھائی تین لاکھ تھی لیکن جنازے میں 6 لاکھ افراد نے شرکت کی تھی۔
تدفین سے قبل مولانا ظفر علی خان نے لحد میں لیٹ گئے اور آقا سے اظہار محبت کیلئے ناموس رسالت کے غازی اور شہید کی لحد کی مٹی کو جسم سے ملنے لگے۔ پھر غازی علم الدین شہید کی تدفین کے اگلے روز مولانا ظفر علی خان نے حضرت زیدؓ کی شہادت کے واقعہ کے تناظر میں سید الرسل کی ناموس کے شہید نو کو زمیندار کے خاص نمبر میں خراج عقیدت پیش کیا۔
پرستاران نسر ولات مشکیں زیدؓ کی کس کر
جب اس اسلام کے شیدا کو مقتل کی طرف لائے
قریش اپنے جلے تن کے پھپھولے پھوڑنے نکلے
گھروں سے رقص بسمل کا تماشہ دیکھنے آئے
جبین زیدؓ پر اس وقت وہ رونق برستی تھی
کہ صبح اولین کے نور کی بارش بھی شرمائے
یہ اطمینان خاطر دیکھ کفر اور جھلایا
دلوں کی تیرگی نے بدر کے داغ اور چمکائے
ابو سفیان پکارا کیا ہی اچھا ہو محمد کو
تیرے بدلے اگر جلاد خاک و خون میں تڑپائے
تڑپ جاتا ہوں جب مجھ کو وہ فقرے یاد آتے ہیں
جو وقت ذبح اس عاشق نے تھے اس طرح فرمائے
مجھے ہو ناز قسمت پہ اگر نام محمد پر
یہ سر کٹ جائے اور تیرا سر پا اسکو ٹھکرائے
یہ سب کچھ ہے گوارہ پر یہ دیکھا جا نہیں سکتا
کہ ان کے پا¶ں کے تلو¶ں میں اک کانٹا بھی چبھ جائے
3 نومبر کو زمیندار نے خبر شائع کی کہ ”غازی علم الدین جنت میں جا پہنچے“ یوں فدایان ناموس انبیاءکا یہ رکن اپنے ساتھیوں میں جا ملا
تدفین سے قبل مولانا ظفر علیخان لحد میں لیٹ گئے
تدفین سے قبل مولانا ظفر علیخان لحد میں لیٹ گئے
Oct 31, 2013