”باچا خان“ اور - ” فلسفہ ءذہنی تشدّد!“

”باچا خان“ اور - ” فلسفہ ءذہنی تشدّد!“

وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دَور میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب جناب محمد حنیف رامے (مرحوم) نے ایک روز مجھے بتایا کہ ”بابائے سوشلزم“ شیخ محمد رشید وفاقی وزیرِصحت تھے اور وہ بھٹو صاحب کی ہدایت پر ایلوپیتھک ادویات کے " Generic Names" (جن کا کوئی تجارتی نام یا رجسٹر شدہ نشان نہ ہو) کے حق میں مُہم چلا رہے تھے۔ ایک بار پارٹی میٹنگ میں ”بابائے سوشلزم“ نے بھٹو صاحب کو بتایا کہ ”بعض متاثرہ دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے، مجھے کروڑوںروپے کی رشوت پیش کی جا رہی ہے لیکن مَیں نے انکار کر دیا ہے“ شیخ صاحب کے اِس بیان پر بھٹو صاحب مُسکرائے اور مُجھ سے پوچھا ”حنیف رامے! کیا تمہیں بھی کسی نے رشوت پیش کی ہے؟“ مَیں نے کہا ”کسی کو جرا¿ت ہی نہیں ہُوئی اِس لئے کہ ہر شخص کو پتہ ہے کہ مَیں رشوت نہیں لیتا“ رامے صاحب نے بتایا کہ ”میری اِس بات پر”بابائے سوشلزم“ نے غُصّے سے میری طرف دیکھا اور کہا ”کیا مَیں رشوت لیتا ہوں؟“ مَیں نے عرض کِیا شیخ صاحب! مَیں تو صِرف اپنی صفائی پیش کر رہا ہوں!“۔
عوامی نیشنل پارٹی کے کوٹے میں میاں نواز شریف کے دونوں ادوار میں وفاقی وزیرِ مواصلات مردان کے سینیٹر محمد اعظم ہوتی نے 28اکتوبر کو پشاور پریس کلب میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ”اسفند یار خان ولی اور افراسیاب خٹک جب امریکہ کے دورے پر گئے تو وہاں دس دِن تک غائب رہے۔ اِس دوران انہوں نے طالبان کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ خُفیہ معاہدہ کر کے ساڑھے تین کروڑ ڈالر وصول کر کے پختونوں کا سودا کر دیا۔ اِس رقم سے دونوں لیڈروں نے پاکستان سے باہر اپنے اثاثے بنائے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے 800کارکنوں کا لہو آج تیل بن کر دُبئی میں اسفند یار ولی کے محل کو روشن کر رہا ہے۔ ملائیشیا میں اُن کا ہوٹل اور شاپنگ پلازا ہے اور افراسیاب خٹک نے بھی ایک عرب مُلک سے چیک وصول کِیا ہے“ اعظم ہوتی صاحب نے کہا کہ ”امریکی حکّام سے اسفندیار ولی اور افراسیاب خٹک کے خُفیہ معاہدے کے بارے میں 40سال سے امریکہ میں مُقیم ایک پاکستانی شخصیت نے مجھے بتایا تھا مَیں نے اُس شخصیت کی مُلاقاتیں بیگم نسیم ولی خان اور افضل خان لالہ سے بھی کرائی تھیں۔“
مرحوم سُرخ پوش لیڈر خان عبدالغفار خان المعروف ”باچاخان“ کی بہو اور خان عبدالولی خا ن کی بیوہ بیگم نسیم ولی خان نے اسفند یار خان ولی اور افراسیاب خٹک پراپنے سگے بھائی محمد اعظم ہوتی کے الزامات کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”اب وقت آگیا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی اور پختون قوم کے خیر خواہ، باچا خان اور ولی خان کی پارٹی کو اِن سوداگروں سے نجات دلانے کے لئے میدان میں آ جائیں“ بیگم صاحبہ نے یہ بھی کہا کہ ”جس پاکستانی نژاد امریکی نے اسفندیار ولی کے دورہ امریکہ کا اہتمام کِیا تھا وہ بعد میں مجھ سے بھی مِلنے آیا تھا۔ اُس نے مجھے کالاباغ ڈیم پر آمادگی کے عوض ایک ارب روپے کی پیشکش کی تھی جسے میں نے ٹھکرا دیا تھا۔ مجھے اسفند یار ولی کے دورہ امریکہ کا عِلم تھا اور اعظم ہوتی نے، تمام سودے بازیوں کو کھُل کر بے نقاب کر دیا ہے۔ پارٹی کے کارکنوں کو چاہئے کہ وہ سودا بازی کرنے والی قیادت سے جان چھُڑا لیں۔“
سوال یہ ہے کہ امریکی حُکّا م اور افراسیاب خٹک کو ساڑھے تین کروڑ ڈالر دِلوانے کے بعد متذکرہ پاکستانی نژاد امریکی شخصیت کا نام فی الحال صِیغہ راز میں کیوں رکھا جا رہا ہے؟ کیا اِس پر بھی کوئی ”خُفیہ معاہدہ“ہُوا ہے اوریہ کہ اُس شخصیت نے بیگم نسیم ولی خان کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر آمادگی کے لئے اپنی جیبِ خاص سے ایک کروڑ روپے کی پیشکش کی تھی یا امریکی حُکّام کی طرف سے؟ فرض کِیا بیگم صاحبہ یہ رشوت قبول کر لیتیں تو کیا وہ اِس پوزیشن میں تھیںکہ عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت کالاباغ ڈیم کی مخالفت ترک کر دیتی؟ جب کہ پارٹی قیادت نے تو بیگم صاحبہ سے پہلے ہی پارٹی کی صوبائی صدارت کی کرسی چھین کر اُس پر افراسیاب خٹک کو بٹھا دیا تھا اِس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ کیا امریکی حکام کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں ہو گئے ہیں؟اِس بات کا امکان تو نہیں ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری باچا خان اور ولی خان کی پارٹی کے قائدین کے الزامات اور جوابی الزامات کا ازخود نوٹس لیںلیکن، کیا پختونوں کی نمائندہ جماعت کے قائدین کے اختلافات دُور کرانے کے لئے ”پختون روایات کے مطابق“ جرگہ بلانا ضروری نہیں ہو گیا ہے؟ انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ" Wash One's Dirty Linen In Public " جِس کے لُغوی معنی ہیں ”اپنے گندے کپڑے سرعام دھونا“ لیکن محاورے کے مطابق گھریلو لڑائی کا چرچا کرنا اعظم ہوتی صاحب نے جو کام دکھایا ہے، اُ س پر یہی تبصرہ کِیا جا سکتا ہے کہ....
” اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“
اسفند یار ولی نے ( تادم ِتحریر )” آتش زدگی“ کی اِس واردات پر کوئی تبصرہ نہیں کِیا البتہ افراسیاب خٹک نے عرب ممالک سے چیک وصول کرنے کی تردید کر دی ہے۔ شاعر نے کہا تھا....
جانتا ہوں تری حقیقت کو
پر تیرا احترام کرتا ہُوں
سابق وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا امیر حیدر ہوتی نے اپنے والدِ محترم، محمد اعظم ہوتی صاحب کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنا سارا وزن اسفند یار ولی کے پلڑے میں ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ ”میرے والدِ محترم نے جِس بات کو سیاسی رنگ دیا ہے وہ دراصل ذاتی ہے ہر گھر میں اختلافات ہوتے ہیں سیاسی گھرانوں میں بھی پھر انہیں باہر کیوںاُچھالا جائے ؟“ ساحر لدھیانوی نے بھی اپنی محبوبہ سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے یہی کِیاتھا جب کہا....
مَیں نے جو گیت ،ترے پیار کی خاطر لِکھے
آج اُن گیتوں کو، بازار میں لے آیا ہوں
باچا خا ن”فلسفہءعدم تشدّد “کے قائل تھے اِس لئے یہ تو ممکن نہیں کہ مرحوم کے خاندان کے لوگ۔ ایک دوسرے کے خلاف  " At Daggers Drawn" ہیںیعنی ایک دوسرے سے لڑنے مارنے پر تُلے ہُوئے لیکن دونوں گروپوں نے، ایک دوسرے کے خلاف”فلسفہءذہنی تشدّد “ ضرور اپنا لِیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن