ڈرتے ہیں اے زمین تِرے آدمی سے ہم

Oct 31, 2015

قرۃ العین فاطمہ

انسان اندر سے ، خود غرض اور لالچی ہوتا ہے۔ مذہب، روایات اور معاشرے کی قید نہ ہو تو وہ درندوں سے زیادہ خونخوار اور وحشی ہو، ایسا خوفناک کہ اپنے بچوں کو بھی نگل سکتا ہے۔ یہ انسا ن کی وہ تعریف ہے جو تاریخ کو پڑھتے ہوئے کسی کے بھی ذہن میں آسکتی ہے۔ ہٹلر، حجاج بن یوسف، الزبتھ بتھوری، ہلاکو یا چنگیز خان ہو وہ تو وہ کردار ہیں جنہیں مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ورنہ ہم میں ہر انسان کے اندر ایک الزبتھ بتھوری ایک چنگیز خان چھپا بیٹھا ہے۔ ننانوے فی صد انسان مجرمانہ سوچ کے حامل ہوتے ہیں، اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے سے انسان کو مذہب، معاشرے اور روایات کا خوف کہیں نہ کہیں روک لیتا ہے۔ اگردنیا کے بیشتر مذاہب میں جنت اور جہنم کا تصور نہ ہوتا سزا اور جزا کی بات نہ کی جاتی، معاشرے کی کوئی اخلاقی حدود نہ ہو تیں یا قانون اور ریاست کا تصور نہ ہوتا تو پھر انسان کا ایک ہی چہرہ ہوتا وہ بہت بھیانک ہوتا۔ زیادہ تر انسان اتنا گھناونا سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انکی اس سوچ پر انہیں معافی دے دی تب تک جب تک وہ اس پر عمل نہیں کرتے۔ انسان اچھائی کم سوچتا ہے اسی لئے اسے اچھائی کا سوچتے ہی اجر مل جاتا ہے بھلے اس پر وہ عمل کرتا ہے یا نہیں۔ اللہ بڑا کریم ہے مگر انسان فطری طور پر ظالم اور ناشکرا ہے۔ اسی انسان کو قرآن میں ظالم، جاہل، متکبر ، جھگڑالو، تنگ دل ، کم ہمت اور بخل کرنے والا بھی کہا ہے۔ فرشتوں نے انسان کی تخلیق پر کہا کہ وہ زمین پر فساد اور خون خرابہ کرے گا لیکن وہ انسان کا خالق ہے وہ اس کی کمیوں سے اچھی طرح سے واقف ہے۔ جہاں اس نے اسے اشرف المخلوقات کہا اسے خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجا، وہاں اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف میں فرمایا وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔ اللہ ایک طرف اس پر عظیم ذمہ داری ڈال رہا ہے وہاں اسکی فطرتی کمزوریوں سے بھی پردہ اٹھاتا ہے۔ انسان جتنا بھی فطرتی کمزوریوں کا مالک ہو وہاں ایک چیز ایسی بھی اللہ نے بتا دی جو انسان کی فکرکو روشن کرتی ہے تمام ظلم اور جہالتیں اس سے دور کرتی ہے انسان اور چوپائے میں فرق کرتی ہے وہ اللہ تعالی کی محبت اور اسکی ناراضگی کا خوف ہے۔ اختیار ایسی چیز ہے جو جیسے ہی انسان کے ہاتھ میں آتی ہے وہ مذہب ، قانون ، روایات اور معاشرتی حدوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے سورہ علق میں فرمایا جب انسان اپنے آپکو بے نیاز دیکھتا ہے تو سرکشی کرتا ہے۔ انسان کے اندر جب اللہ کی محبت ختم ہو جاتی ہے تو وہ اسکی ناراضگی سے بے نیاز ہو کراپنی فطرت پر آجاتا ہے ، دنیا کا حرص اور طمع اسے ظالم بنا دیتا ہے۔ وہ اپنے انجام سے بے نیاز ہو کر اپنے اُوپر بھی ظلم کرتا ہے ا ور اپنے ساتھی انسانوں پر بھی۔ صاحب اختیار سے مراد حاکم نہیں ہر شخص اختیار والا ہے وہ اپنی ذات اور اہل و عیال پر اختیار رکھتا ہے۔ اور اس سے اسکی بابت پوچھا جائے گا۔ اگر کوئی اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالتا ہے تو وہ ظالم ہے۔ اپنے اہل و عیال کی حق تلفی کرتا ہے ، ہمسائے کے حقوق ادا نہیں کرتا ، لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے ، بد دیانتی اور خیانت کرتا ہے تو وہ ظالم ہے۔ ظلم اجتماعی زندگیوں پر تب اثر انداز ہوتا ہے جب وہ انفرادی زندگی کا حصہ بن چکا ہوتا ہے۔ مولانا روم ؒ فرماتے ہیں کہ کوئی دوسرے کے جس عیب کا جتنا چرچا کرے سمجھ لو یہ عیب اسکے اندر موجود ہے جسے واویلا کر کے وہ دبانے یا چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم بڑی کرپشن کا واویلا کرتے ہیں لیکن ہم میں سے سب لوگ کرپٹ ہیں۔ ہم اپنی انفرادی زندگی میں ظالم ہیں۔ جب ہم ایک ملازم کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھ سکتے تو ہم حکمرانوں سے رعایا سے اچھا سلوک نہ کرنے کا شکوہ کرنے کا بھی حق نہیں رکھتے۔ اصلاح احوال ہم ہمیشہ انفرادی زندگی سے شروع ہوتی ہے۔ اور وہ تب ہو سکتی ہے جب ہم میں اللہ کا خوف پیدا ہو گا ، ورنہ بڑھتے ہوئے جرائم اور آئے روز حیوانیت اور درندگی کی داستانیں بڑھتی جائیں گی۔ انسان کو اپنی فطری کمزوریوں کو اللہ کی محبت اور اسکے خوف سے اپنی طاقت بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر انسان فطری طور پر تنگ دل ہے تو اسے اس ہدایت کے نور سے جس نے سخاوت ، صدقہ اور زکوۃ کا درس دیا ، اس سے اپنی دلوں میں وسعت پیدا کرنی چاہئے ، اگر وہ ظالم ہے تو اسے رحم ،خدمت، شفقت ، محبت اور ہمدردی جیسے خوبصورت جذبات سے ظلم کو ختم کر دینا چاہیے۔ اگر نا شکرا ہے اور اس میں تکبر ہے تو نماز اور عبادت سے شکر ادا کرنا اور جھکنا سیکھنا چاہیے۔ جہالت اور کم ہمتی کو ایمان کی طاقت سے ختم کر سکتا ہے۔ اللہ نے کمزوریوں سے نہ صرف پردہ اٹھایا بلکہ ان کو دور کرنے کے راستے بھی دکھا دئیے ہیں۔ اگر انسان جزا اور سزا کے تصور سے بغاوت پر اتر آئے تو وہ ہلاکو اور چنگیز سے بھی بد تر ہو جاتا ہے۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اسی فلسفے اور تصور کو پختہ کرنے کی ضرورت ہے ، یقین کیجئے ، کرپشن ، بے راہروی ، ظلم اور جبر سب کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کیونکہ معاشرہ ہم لوگ تشکیل دیتے ہیں یہ حکمران بھی ہم میں سے ہی ہوتے ہیں۔ آنیوالے وقتوں میں معاشرے کو تباہی اور درندگی کے حوالے کرنے سے بہتر ہے کہ ابھی سے اس کی بہتر پلاننگ کی جائے۔ اپنی نسلوں کو آنیوالے وقتوں کی میں زندگی کے ہر میدان میں قیادت کیلئے تیار کیا جائے۔ اللہ کے خوف کو اور سزا اور جزا کے تصورکو بچپن سے ہی بچوں کی تربیت کا حصہ بنانا چاہیے ، یہ ان کے اندر پختہ ہو جائے ، تاکہ جب یہی بچے بڑے ہو کر کسی مقام پر پہنچیں تو یہ خیانت اور بددیانتی کرنے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ ایماندار اور دیانت دار نسل ہی قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔

مزیدخبریں