جناب عمران خان کے اِس بیان کے بعد کہ ’’ نون لیگ پنجاب کی ایم کیو ایم ہے اور رانا ثناء اللہ جیسے وزیرِ قانون ہُوں تو عام لوگوں کو انصاف کیسے مِلے گا‘‘۔ اصولی طور پر فیصل آباد کے بلدیاتی انتخابات میں نون لیگ کے باغی لیڈر پانی اور بجلی کے وزیرِ مملکت عابد شیر علی کے والد چودھری شیر علی کو عمران خان کا ممنون ہونا چاہیے تھا لیکن الٹا پاکستان تحریکِ انصاف پنجاب کے آرگنائزر اور سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کو دعوت دے دی کہ ’’ فیصل آباد آئو اور مجھ سے سیاست سیکھو!‘‘
سیاست ہے یا سارنگی؟
چودھری شیر علی نے رانا ثناء اللہ کے حوالے سے اپنی تقریر میںکہا کہ ’’ شیر کی کھال کھینچیں گے تو اندر سے گدھا نِکلے گا‘‘۔ یہ اُن کا اور اُن کے رشتہ داروں/ لیڈروں ( شریف برادران) کا آپس کا معاملہ ہے لیکن چودھری محمد سرور کو سیاست میں نو آموز ظاہر کر کے انہیں اپنی شاگردی میں لینے کی خواہش کا کیا مقصد؟ سب سے پہلی بات تو یہ کہ ’’ گدھا‘‘ حضرت عیسیٰ اور بنی اسرائیل کے دوسرے پیغمبروں کی سواری رہا ہے اور امریکی صدر جناب اوباما کی پارٹی ’’ ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘۔ کا انتخابی نشان بھی گدھا ہے بلکہ ’’ دولتّی مارتا ہُوا گدھا۔ (Kiking Donkey) چودھری شیر علی نے وہ ضرب اُلمِثل تو سُنی ہوگی کہ ’’ ضرورت کے وقت لوگ گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں ۔ اِس لئے کہ شیروں کی برادری میں کسی گدھے یا انسان کو بیٹا بنانے کارواج نہیں ہے۔
یوں بھی آج کل پاکستان میں گدھوں کی بہت "Demand" ہے ۔ خاص طور پر با اثر لوگ چوری چُھپے یا سینہ زوری کر کے گدھوں کی کھالیں اُتار کر اور اُن کا گوشت گلی محلوںکے قصابوں کو تحفے میں دے دیتے ہیں ۔ عابد شیر علی نے بھی والدِ محترم کے ساتھ فیصل آباد کے جلسے سے خطاب کِیا اور رانا ثناء اللہ کو قاتل قرار دِیا۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ خادمِ اعلیٰ پنجاب بلدیاتی انتخابات میں فیصل آباد کے معاملے میں غیر جانبدار ہوگئے ہیں ۔ یہ اُن کا اپنا معاملہ ہے لیکن مسلسل 12 سال تک برطانوی داراُلعلوم کے رکن منتخب ہونے والے چودھری محمد سرور کو ’’ سیاست سِکھانے‘‘ کا مطلب؟۔
فروری کے وسط میں برطانیہ کی برسرِ اقتدار جماعت "Conservative Party" کی سابق وزیر اور ہائوس آف لارڈز کی رُکن محترمہ سعیدہ وارثی پاکستان کے دورے پر آئی تھیں ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’’ مَیں پاکستان کی سیاست میں حِصّہ نہیں لُوں گی۔ مَیں نے تو پنجاب کے مستعفی گورنر چودھری محمد سرور کو بھی پاکستان کی سیاست میں حِصّہ لینے سے منع کِیا تھا۔‘‘ یہ امر قابل ذکر ہے کہ برطانیہ کے ہائوس آف لارڈز کے ارکان پوری زندگی کے لئے نامزد ہوتے ہیں ۔پاکستان کی سیاسی / مذہبی جماعتوں کے سربراہوں کی طرح سیاست ایک ایسا فن ہے جو مسلسل محنت اورتجربے سے خود بخود آ جاتا ہے ۔ البتہ سارنگی باقاعدہ کسی اُستاد سے سیکھنا پڑتی ہے۔
’’ سماجی اور معاشی انصاف کی گولِیاں؟‘‘
امریکی قونصلیٹ لاہور میں امریکہ کے قومی دِن کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہُوئے خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا کہ’’ مختلف ادوار میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اونچ نیچ آتی رہی تاہم دوستی کا یہ رشتہ 6 دہائیوں پر محیط ہے۔‘‘ سفارتی اور معاشی طور پر اونچے اور نیچے ممالک میں اونچ نیچ کے ہی تعلقات ہوتے ہیں۔ بعض مذہبی راہنمائوں کا فیصلہ ہے کہ اونچ نیچ، خالقِ مُطلق کی طرف سے ہوتی ہے۔
لیکن پنجابی زبان کا ایک اکھان ہے کہ ’’عِشق نہ پُچھّے ذات‘‘۔ حضرتِ داغؔ دہلوی نے بھی کہا تھا کہ :۔
’’ناصح نے اونچ نیچ تو سمجھائی ہے بہت
پر اِس کا کیا کروں کہ دِل مانتا نہیں ‘‘
خادمِ اعلیٰ نے عوامی جمہوریہ چین سے دوستی پکّی کرنے میں بہت محنت کی۔ اُن کے میڈیا منیجروں نے 26 مارچ 2015ء کو قومی اخبارات میں ایک خبر شائع کرائی تھی کہ ’’ عوامی جمہوریہ کے کارپوریٹ سیکٹر، تجارتی اداروں ، سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں تیز رفتاری کی غیر معمولی لگن اور محنت سے کام کرنے والوں کو ’’ شہباز شریف کے شاگرد‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے‘‘۔ دروغ برگردنِ شعیب بِن عزیز کہ اِس خبر کی اشاعت سے امریکہ میں خادمِ اعلیٰ کی غیر جانبداری بہت متاثر ہوئی‘‘۔ یہ بھی کہا گیا کہ ’’وزیراعظم میاں نواز شریف بھی اِس باعث برادر خورد کو امریکہ کے دورے پر لے جانے کے بجائے خاتونِ اوّل محترمہ کلثوم نواز اور دُختر نیک اختر مریم نواز کو ساتھ لے گئے‘‘۔
بعض حاسدوں نے یہ افواہ بھی اڑادی کہ ’’ خادمِ اعلیٰ اب امریکہ کی "Good Book" میں نہیں رہے‘‘ لیکن 29 اکتوبر کو امریکی قونصلیٹ لاہور میں ، خادمِ اعلیٰ کو مدعُو کئے جانے سے یہ سب افواہیں دم توڑ گئیں۔ اب وہ دِن دُور نہیں کہ کسی روز حمزہ شہباز بھی امریکی قونصلیٹ لاہور میں مہمانِ خصوصی کا کردار ادا کر رہے ہوں گے ۔ خادمِ اعلیٰ پنجاب نے اپنے خطاب میں بندوق کی گولی اور ’’ دوا کی گولی‘‘ میں فرق بیان کرتے ہُوئے فرمایا کہ’’دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بندوق کی گولی کے ساتھ ساتھ سماجی اور معاشی انصاف کی گولیاں بھی ضروری ہیں ‘‘۔ بات تو معقول ہے لیکن یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ پاکستان کے ’’ ضرورت مندوں ‘‘ میں سماجی اور معاشی انصاف کی گولیاں کون تقسیم کرے گا ؟ صدر اوباما؟وزیرِاعظم نواز شریف؟ یا خود خادمِ اعلیٰ؟۔تیسری بار وزارتِ عُظمیٰ کا حلف اٹھانے سے چند روز قبل ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان لاہور میں 28 مئی 2013ء کو ڈاکٹر مجید نظامی ( مرحوم) کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں میاں نواز شریف نے جنابِ نظامی کو گواہ بنا کرکہا تھا کہ ’’ پہلے ہم نے ایٹمی دھماکا کِیا تھا ، اب معاشی دھماکاکریں گے ‘‘۔ جنابِ مجید نظامی آج حیات ہُوتے تو کم از کم خادم اعلیٰ سے (جنہیں انہوں نے شہبازِ پاکستان کا خطاب دِیا تھا ) ضرور پوچھتے کہ ’’ کون کرے گا اوہ دھماکا تے کدوں؟‘‘ (ن) لیگ کے بعض سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ ’’ اقتدار میں آ کر دھماکا کرنے کی لکیر تو حمزہ شریف کے دائیں ہاتھ پر ہے!‘‘ ’’ گولی دینا‘‘ کے معنی ہیں کسی بیمار کو دوا کی گولی دینا یا کسی کو ’’ لارا دینا‘‘۔ ایک پنجابی فلمی گیت میں ہیروئن اپنے محبوب سے کہتی ہے:۔
’’ کوئی نواں لارا لا کے ، سانوں رول جا
جھوٹیا وے اِک جُھوٹ ہور بول جا‘‘
جہاں تک بندوق کی گولی جائے اُس فاصلے کو ’’ گولی کا ٹپّا کہتے ہیں ۔ بقول شاعر:۔
’’ تمہارے گانے سے زُہرہ کے گانے تک اے ماہ
مرے خیال میں ٹپّا ہے ایک گولی گا‘‘
مَیں نے توخیر کبھی یہ تجربہ نہیں کِیا لیکن سُنا ہے کہ کوئی خاص قِسم کی گولی کھا کر انسان کی بھوک مٹ جاتی ہے۔ کلاسیکی موسیقی کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ وہ راگ ملہار گا کر بارش برسا سکتے ہیں اور دیپک راگ گا کر آگ جلایا لگا سکتے ہیں ۔ میری تو اِس طرح کے موسیقاروں سے شناسائی نہیں ہے جو اپنے فن سے سماجی اور معاشی انقلاب لا سکیں لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ خادمِ اعلیٰ پنجاب یا عوامی جمہوریہ چین میں اُن کا کوئی شاگرد پاکستان میں سماجی اور معاشی انصاف کی گولیاں ایجاد کرلے۔ جب ہماری قوم سماجی اور معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم ہو گی تو اور بڑی طاقتوں کے ساتھ ہمارے تعلقات میں کبھی اونچ نیچ بھی نہیں ہوگی۔
٭٭…………٭٭