اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی کیخلاف ایم کیو ایم کی درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا ہے کہ پابندی پندرہ روز کیلئے تھی، توسیع نہ دینے پر عدالت عالیہ کا حکم خود بخود ختم ہو گیا۔ ایم کیو ایم کی وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ہائیکورٹ نے الطاف حسین کے براہ راست بیانات پر پابندی کا حکم دیا جو الطاف حسین کے بنیادی حقوق اور آزادی رائے کے خلاف ہے۔ جج کے ریمارکس تھے الطاف حسین معافی مانگ لیں تو معاملہ ختم ہو جائے گا، الطاف حسین نے تحریری معافی بھی مانگی، لیکن معاملہ تاحال زیر التوا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آرٹیکل 19 کے تحت آزادی رائے بھی مشروط ہے، اسی آرٹیکل کے تحت آزادی رائے پر قانونی قدغنیں موجود ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا الطاف حسین کی تقاریر اور بیانات پر پابندی پندرہ روز کے لئے تھی، 7 ستمبر کو پابندی کا حکم دیا گیا، اٹھارہ ستمبر کو اس حکم میں توسیع نہ ہونے کے بعد عدالت عالیہ کا حکم خود بخود ختم ہو گیا۔ نمائندہ نوائے وقت کے مطابق سپریم کورٹ نے مقدمہ سندھ ہائیکورٹ منتقل کرنے اور فریقین وکلاء کو دھمکیوں سے متعلق درخواستیں خارج کردیں ہیں جبکہ میڈیا پابندی سے متعلق تیسری درخواست پر عدالت نے سپریم کورٹ رولز 2اے کے آرڈر 39 رول 2 کے تحت ہائیکورٹ کے جاری کردہ حکم امتناع کی 15 روزہ مدت ختم ہونے کے بعد آئین و قانون کے تحت موثر یا غیر موثر ہونے کا تعین کرنے سے متعلق فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے قواعد ضوابط کے مطابق حکم امتناع کی مدت صرف 15 روز ہوتی ہے، اس قاعدہ کے تحت آپ کے کیس میں توسیع نہ دینے پر اب کیا پوزیشن ہے؟