واشنگٹن (نمائندہ خصوصی+ نیٹ نیوز) امریکہ کی شام کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔ داعش کیخلاف برسرپیکار مقامی فورسز کی مدد کیلئے تھوڑی تعداد میں امریکی سپیشل آپریشنز فورسز کے اہلکار تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس بات کا اعلان وہائٹ ہاؤس نے کیا ہے۔ ایک سینئر ایڈمن اہلکار نے بتایا کہ یہ گروپ 50 سے کم فوجیوں پر مشتمل ہو گا جو عراق اور شام میں داعش کے خلاف مقامی، زمینی اور اتحادی گروپوں کی کوششوں میں رابطہ رکھے گا۔ ان کی معاونت کرے گا، مشاورت میں حصہ لے گا، صدر اوباما نے اس کی منظوری دے دی ہے۔ بی بی سی کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ شام میں سپیشل فورسز کے اہلکار بھیج رہے ہیں جو حکومت مخالف گروہوں کی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں مدد کریں گے۔ حکام کے مطابق سپیشل فورسز میں ’50 سے کم‘ نفری شامل ہو گی۔ یہ پہلا موقع ہو گا کہ امریکی فورسز شام میں کھلے عام کارروائی میں حصہ لیں گے۔ یاد رہے ماضی میں امریکی فورسز نے شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیاں کی ہوئی ہیں۔ امریکی انتظامیہ کے سینئر اہلکار نے بتایا کہ سپیشل فورسز بھیجنے کا مطلب یہ نہیں کہ شام کے حوالے سے امریکی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔ ان کارروائیوں کا مرکز شمالی شام ہو گا۔ ماضی میں امریکی سپیشل فورسز نے شام میں دو کارروائیاں کی ہیں۔ مئی میں مشرقی شام میں ایک کارروائی میں دولت اسلامیہ کے سینیئر رکن ابو سیاف کو ہلاک کیا گیا اور ان کی اہلیہ کو حراست میں لیا گیا۔ پچھلے سال امریکی صحافی جیمز فولی سمیت امریکی مغویوں کو بازیاب کرانے کے لیے آپریشن کیا گیا جو ناکام رہا اور بعد میں دولت اسلامیہ نے جیمز فولی کا سر قلم کر دیا۔ امریکہ نے یہ اعلان ایسے وقت کیا ہے جب شام کے تنازعے کے حل کے لیے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں عالمی اور علاقائی طاقتوں کے درمیان اہم بات چیت ہونے والی ہے جس میں ایران پہلی بار شرکت کر رہا ہے۔ اس بات چیت سے قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ان ممالک پر زور دیا کہ وہ شام کی عوام کے مصائب کے خاتمے کے لیے قومی مفاد سے بالاتر ہو کر متحد ہو جائیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ شام کے مسئلے پر متعلقہ ممالک کو اپنے موقف میں نرمی پیدا کرنی چاہیے تاکہ اس تنازع کو حل کیا جا سکے۔ دریں اثنا شام کے شہر دومہ میں حکومتی طیاروں کی فضائی کارروائی میں 17 بچوں سمیت 91 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے۔ سرکاری جنگی طیاروں نے دمشق کے مشرق میں موجود دومہ کے مصروف بازار کو نشانہ بنایا۔ فضائی کارروائی کے دوران باغیوں کے ٹھکانوں پر میزائل حملے کئے گئے جس میں متعدد افراد کی ہلاکتوں کا بھی خدشہ ہے۔ سول ڈیفنس کے حکام کا کہنا ہے کہ دومہ کو دوسری مرتبہ نشانہ بنایا گیا ہے۔ مقامی افراد نے بتایا کہ علاقے پر صبح بمباری شروع ہوئی، ہر 10 منٹ بعد راکٹوں اور طیاروں سے حملے کئے گئے۔ شام میں انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ اس حملے میں 40 افراد ہلاک اور 140 زخمی ہوئے۔ واضح رہے کہ شام میں یہ حملہ اس وقت کیا گیا ہے جب امریکہ، روس، ترکی اور ایران سمیت 17 ممالک کے وفود شام کے مسئلے پر ویانا میں اعلیٰ سطحی کانفرنس میں شریک ہیں جس کے شرکا کا اتفاق ہے کہ شام کا مسئلہ طاقت کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے روسی ہم منصب سر جی لاوروف نے کہا ہے کہ انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ شام کو سیکولر سٹیٹ کے طور پر خانہ جنگی سے باہر ابھر کر آنا چاہئے۔ ویانا(آن لائن) شام کے تنازعہ کے حل کیلئے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں عالمی اور علاقائی طاقتوں کے درمیان اہم بات چیت ہوئی جس میں ایران پہلی بار شرکت کی۔ بڑی عالمی طاقتیں بشار الاسد نے معاملے پر منقسم ہیں۔ اس بات چیت سے عین قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ان ممالک پر زور دیا کہ وہ شام کی عوام کے مصائب کے خاتمے کیلئے قومی مفاد سے بالا تر ہوکر متحد ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ شام کے مسئلے پر متعلقہ ممالک کو اپنے موقف میں نرمی پیدا کرنی چاہیے تاکہ اس تنازع کو حل کیا جا سکے۔یہ پہلا موقع ہے کہ شام کے مسئلے پر ایران پہلی بار سفارتی سطح پر اس میں شامل ہوا ہے۔ ایران کی طرح روس بھی شام کے موجودہ حکمران بشار الاسد کا حامی ہے اور وہ بھی اس بات چیت میں حصہ لے رہا ہے۔ایران اور روس کو بات چیت میں امریکہ اور سعودی عرب کا سامنا ہے جو بشار الاسد کے سخت مخالف ہیں۔اس بات چیت میں شام کی حکومت اور باغیوں کے کسی نمائندے کو دعوت نہیں دی گئی ہے۔ادھر یورپی یونین کی جانب سے خارجہ امور کی سربراہ فیڈرکا موگیرینی نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ اس بات چیت سے سیاسی حل کا کوئی راستہ نکلے گا۔شام کے تنازع کے بڑے فریقین شامی حکومت اور باغیوں کے حمایتی ممالک ویانا میں شام کی خانہ جنگی کے خاتمے کیلئے ملاقات رہے ہیں۔ اس بات چیت میں روس اور ترکی بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب نے کہا ہے کہ ایران کو شام کے تنازعہ کے حل کیلئے بشارالاسد کی اقتدار سے علیحدگی کو قبول کرنا ہوگا۔سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ عدیل الزبیر نے یہ بیان ویانا میں شامی کے مسئلے پر ہونے والی بین الاقوامی بات چیت کے دوران دیا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ شام کے تنازع کے حل کیلئے ہونے والی بات چیت میں ایران کی شمولیت سے کافی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ انہوں نے عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ عالمی رہنمائی کا مظاہرہ کریں اور رویوں میں لچک دکھائیں۔ایران پہلی مرتبہ اس نوعیت کے مذاکرات کا حصہ بن رہا ہے۔ اس بات چیت میں روس اور ترکی بھی شامل ہیں۔شامی صدر بشارالاسد کے حامی ہیں۔ دونوں نے حال ہی میں شامی لڑائی میں اپنا فوج کردار ادا کیا ہے۔امریکہ، سعودی عرب اور دورسی خلیجی ریاستوں کا اصرار ہے کہ بشار الاسد اب زیادہ عرصے تک شام کے مستقبل سے وابستہ نہیں رہے سکتے۔اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ امریکہ شام کی خانہ جنگی کو ختم کرنے کیلئے سفارتی کوشش تیز کر رہا ہے۔ امریکہ شام کے باغیوں کا حامی ہے۔