غوث بخش باروزئی سے ریموٹ کنٹرول رابطہ

باروزئی لاہور میںمسافر تھے، مسافر نے آخر تو چلے جانا ہوتا ہے مگر وہ دلوں سے دور نہیں ہوئے، دماغوںمیں بھی بس رہے ہیںایک عجب انس ہے جو ان کی شخصیت کا شاید جادو ہے۔وہ پہلے بلوچ لیڈر نہیںجن سے ملاقات ہوئی، اکبر بگٹی سے کئی بار ملا،ا سوقت بھی ملا جب وہ اردو کے بائیکاٹ پر تلے ہوئے تھے مگر پنجابی بولتے تھے اور ہری مرچ شوق سے کھاتے تھے۔میر نبی بخش زہری ایک باغ وبہارشخصیت تھے، میںنے کالم نویسی کی ابتدا ان کی ایک پریس کانفرنس سے متاثر ہو کر کی جس میںانہوں نے پیش کش کی کہ جس کسی کو اپنا مقبرہ بنانا ہو، وہ سبز سنگ مرمر اسے ہدیہ کر سکتے ہیں۔میر ظفراللہ جمالی سے تو دوستی ہی نہیں یاری تھی۔ مگریاروا! مجھے بلوچستان کی پھر بھی کچھ سمجھ نہ آ سکی۔بلوچ رہنما اپنی نوعیت کی منفرد مخلو ق ہیں، ویسے تو انہیں پاکستان اچھا نہیں لگتا مگر بلوچستان یا پاکستان میں اقتدار مل جائے تو سب اچھا ورنہ کڑوا کڑو اتھو تھو والا محاورہ صادق آتا ہے۔ اب یہ اچکزئی خاندان ہی کو لے لیجئے، یہ چادر پوش لیڈر جمہورہت کا دلدادہ ہے مگر اس نے اپنے ہی صوبے کے لیڈر ظفراللہ جمالی کو وٹ نہیں دیا تھا، اکیلا چادر لپیٹے ایوان میںبیٹھا رہا، جمالی صاحب پھر بھی ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم بن گئے اور اتنے دن ہی اپنے منصب پر فائز رہے جتنی چودھری خاندان کی مرضی تھی۔بلوچوں کو پہاڑوں پر چڑھ کر لڑنا آتا ہے یا پھر کابل، لندن میں بیٹھ کر بلوچ علیحدگی کی تحریک چلانے کا ہنر۔اس وقت ڈاکٹر عبدالمالک اس صوبے کے وزیر اعلی ہیں، ان کی آدھی ٹرم پوری ہو گئی ہے اور معاہدے کے مطابق ٹرم مکمل ہو گئی ہے مگر ان کے گرد ایک طائفہ ہے جو ان کی توسیع کے حق میں لکھتا ہے ا ور بولتا ہے اور زہری صاحب کو صبر شکر پر اکتفا کرنے کا درس دیتا ہے۔بلوچستان کے ایک کور کمانڈر حال ہی میں ریٹائر ہوئے، ان کو قومی سلامتی کا مشیر لگا دیا گیا ہے، میںنے لکھا کہ وزیر اعظم نے ان کو ساتھ لے جانے سے روکنے کے لئے ان کا نوٹی فیکیشن روکے رکھا ،کسی صاحب نے نوائے وقت کی فیس بک پر اعتراض کیا کہ اگر مجھے پوری معلومات نہ ہوں تو کالم نویسی سے پرہیز کروں، تبصرہ اپنی جگہ پر درست ہو سکتا تھا مگر میںنے اب جو تحقیق کی ہے تو پتہ چلا ہے کہ جتنے دن وزیر اعظم نے امریکہ میں گزارے، جنرل موصوف گالف کلب میں دیکھے گئے۔ان جنرل صاحب کی بھی اتنی ہی تعریفیں کی جا رہی ہیں جتنی ڈاکٹر مالک کی ہوتی ہیں ، اس طرح یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ دونوںمیںسے دراصل کس نے صوبے کے حالات سدھارے،میں فوج پر تبصرے تو اس طرح کرتا ہوں جیسے میراا ٹھنا بیٹھنا فوج کے ساتھ ہے مگر عملی صورت حال یہ نہیں۔مجھے براہ راست فوج کی معلومات کم ہی ملتی ہیں، سارا کام قیافے پر چلاتا ہوں باقی تو میر ا ہنر ہے کہ اس میں رنگ کیسے بھرتا ہوں۔اب یہ جو جنرل جنجوعہ ہیں، میری ان سے کوئی شناسائی نہیں، نہ ان سے ربط ضبط ہے، حاضر سروس جنرل بہت کم میل جول کرتے ہیں میںنے تو لاہور کے کور کمانڈر کا چہرہ تک نہیں دیکھا، ایک آتا ہے، دوسرا چلا جاتا ہے ، ایک زمانہ تھا کہ ایک کالم نویس فوج کے لتے لیتے تھے مگر جنرل کیانی انکی ڈکشن کے بڑے مداح تھے ا ور ان کو ہر جگہ ساتھ لے کے پھرتے تھے،میری ڈکشن شاید کیانی ا ور اب راحیل کو پسند نہ ہو، دو کتابیں بھی لکھ دیں مگر فوج میرے ساتھ بات کرنے سے گریز کرتی ہے، جتنے ریٹائرڈ ہیں، وہ ضرور ملتے ہیں اور انکا شکریہ کہ ان کے ذہن سے فوج کو سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے۔

میںنے بات تو شروع کی تھی غوث بخش باروزئی سے، اور درمیان میں بھٹک سا گیا، باروزئی سے مسلسل میل جول ہے، وہ باقاعدگی سے فون کرتے ہیں اور دوستوں کا نام لے کر حال ا حوال پوچھتے ہیں، حتی کہ کھانے کی ایک دعوت میںمیرے ساتھ میرا دس سالہ پوتا عبداللہ بھی ساتھ تھا،ا س کے بارے مں خاص طور پر پوچھتے ہیں، عبداللہ اس پر بڑا خوش ہے کہ ا س نے اتنی چھوٹی عمر میں ایک عظیم سیاستدان سے قربت حاصل کر لی ہے۔آج مجھے باروزئی صاحب نے ایک اخباری تراشہ بھیجا ہے، ان کے صوبے میں ایک ا نگریزی کااخبار ہے بلوچستان پوائنٹ، نک سک سے خوبصورت ! اس میں باروزئی کا انٹرویو شائع ہو اہے جس کا عنوان ہے کہ میںنے ایک محفوظ صوبہ ڈاکٹر مالک کے حوالے کیا۔مندرجات ا س سے بھی زیادہ دلچسپی کا باعث ہیں۔اخبار کی طرف سے عدنان عامر نے پہلا سوال روایتی انداز میں ہی کیا ہے کہ اپنے بارے میں کچھ بتائیں۔ جواب ہے کہ میں ایک ا یسے قبیلے سے تعلق رکھتا ہوںجس نے صدیوں تک سندھ سے قندھارتک حکمرانی کی۔پاکستان بنا تو میرے والد محمد خان باروزئی دو بار صوبے کے وزیر اعلی رہے اور پہلی اسمبلی کے اسپیکر بنے۔مکران ڈویژن کی تشکیل میرے والد کے ہاتھوںہوئی، انہوںنے ایک روز گار سیل بھی شروع کیا جو آگے چل کر آغاز حقوق بلوچستان پروگرام کی شکل ا ختیار کر گیا۔
بھٹو اور نیپ کے جھگڑے میںکون قصوروار تھا؟
تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، میرے خیال میںنیپ نے وفاق سے تصادم کا راستہ ا ختیار کیا مگر بعد میںجو واقعات رونما ہوئے وہ پاکستان اور صوبے دونوں کے لئے مہلک ثابت ہوئے ۔
ڈاکٹر مالک کا دعوی ہے کہ انہوں نے صوبے کی سیکورٹی مثالی بنا دی، آپ کا تبصرہ!
وہ جو مرضی کہتے رہیں مگر میںنے ایک محفوظ صوبہ ان کے حوالے کیا، اقتدار میں آتے ہی میںنے سیکورٹی کی میٹنگ طلب کی، مجھے بتایا گیاکہ مجرموں کو پکڑنے کیلئے جی ایس ایم لوکیٹر زکی اشد ضرورت ہے، میںنے اپنے صوابدیدی فنڈ سے دو سو اسی ملین خرچ کئے، یہ اشیا خریدی گئیں اور مجرموں کی گرفت کی گئی، میںنے انتخابات کاانعقاد ممکن بنایا۔ مجھ سے کہا گیاتھا کہ صوبے میں تین مرحلوںمیں الیکشن ہو گا ، میںنے انکار کیا ور ایک ہی مرحلے میں الیکشن کاا نعقادکروا دیا اور نقادوںکو خاموش کرا دیا۔ آج تو پنجاب میں بلدیاتی الیکشن ایک مرحلے میںنہیںکروایا جا سکا۔
کہا جاتا ہے کہ قبائلی سرداروں نے صوبے کوتباہ کیا ہے، آپ بھی تو ایک قبیلے کی سربراہ ہیں،کیا کہیںگے ا س پر !
جی ہاں میں باروزئی قبیلے کا چیف ہوںمگر مجھے انگریزوںنے نواب نہیں بنایا۔ جو سردار انگریزوں کی پیداو ر ہیں، وہ صوبے کی خرابیوں کے ذمے دار ہیں۔خواہ کوئی مری ہو ،بگتی ہو یا مکرانی، وہ افسر شاہی اور کرپشن کے بل بوتے پر اثرو رسوخ بڑھا رہے ہیںا ورعوام کے مسائل میں بڑھا رہے ہیں۔خود ان کی پانچوں گھی میں ہیں۔
اگلے برس مرم شماری ہونے جا رہی ہے، صوبے میں افغان مہاجر بڑی تعداد میں ہیں، ان کاکیا بنے گا؟
جو لوگ ڈیورنڈ لائن پار سے آئے ہیں ، وہ مردم شماری کا حصہ نہیں بن سکتے لیکن مقامی پشتونوں کو اس آڑ میں پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا، روایتی بلوچ سرداروں کی کوشش تو ہو گی کہ وہ انہیں مردم شماری سے باہر رکھیں مگر ایسانہیں ہونے دیا جائے گا۔
صوبے کی حالت سدھارنے کا بنیادی اصول کیا ہونا چاہئے؟
جہاندیدہ گرم و سرد چشیدہ سردار باروزئی کا جواب ہے کہ میرٹ کی فرمانروائی۔
مجھے تو یہ ساری باتیں اچھی لگیں اور میںنے میرٹ کی بنیاد پر آپکے سامنے رکھ دیں۔

ای پیپر دی نیشن