کس حال میں ہیں یاران وطن

کیپٹن شاہین کہتے ہیں کہ اوور سیز پاکستانیوںکے لئے تارکین وطن کا لفظ قبول نہیں، یہ لوگ پاکستان سے گئے ضرور مگر ان کی جڑیں یہیں پر ہیں،وہ ہر حال میں اپنے آپ کو پاکستانی ہی سمجھتے ہیں۔

پنجاب حکومت نے اوور سیز پاکستانیوںکے مسائل کے حل میںمدد دینے کے لئے ایک ادارہ قائم کیا، چیف منسٹر خود اس کے چیئر مین ہیں اور یہی اس ادارے کی اصل قوت ہے اور کیپٹن شاہین وائس چیئر مین کے منصب پر فائز ہیں، ان کی ذات اس ادارے کےلئے موراوور طاقت کا باعث ہے، انہیں وزیر اعلی کا بھرپورا عتماد حاصل ہے اورا س اعتماد کو انہوںنے اوور سیز پاکستانیوں کا سہارا بنا دیا ہے۔ یہ سہر اکیپٹن شاہین کے سر سجتا ہے ا ور بھلا لگتا ہے۔کیپٹن شاہین کو میںنے سیاست کرتے نہیں دیکھا مگر وہ دوستی نبھانے والے انسان ہیں، شریف برادران سے ان کی دوستی ہے مگر جو شخص بھی نیویارک میں ان کے ڈیرے پر پہنچتا تھا، وہ اس کا استقبال ریڈ کارپٹ بچھا کر کرتے رہے۔ اور ہر ایک کے دل میں گھر کرتے رہے۔
اوور سیز فاﺅنڈیشن کی ضرورت کیوںپڑی۔ اس کی وجہ سب پہ ظاہر ہے، کوئی اوور سیز پاکستانی ا یسا نہیں جو ملک کے اندر کسی نہ کسی سنگین مسئلے سے دوچار نہ ہو، اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے مسئلے کاپیچھا کرنے کے لئے چندروز کے لئے واپس آ سکتا ہے، اور اسی کمزوری سے استحصالی گروہ فائدہ اٹھاتے ہیں، اوور سیز فاﺅنڈیشن نے اس کمزوری کو دور کر دیا ہے، اب کسی کو اپنی فائل کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں، صرف آن لائن شکائت درج کرائے اور پھر اوور سیز فاﺅنڈیشن کی ذمے داری بن جاتی ہے کہ وہ اس کی وکالت کرے۔ کپٹن شاہین کہتے ہیں کہ ایک سال میں کامیابی کی شرح باون فیصد ہے اور باقی وہ مسائل ہیں جو عدالتوں میں ہیں اور اس میدا ن میں فاﺅنڈیشن دخل نہیں د ے سکتی، ا سکے لئے تو عدالت کے فیصلے کا ہی انتظار کرنا پڑے گا، پھر بھی عدالتی مقدمات کو باہر باہر حل کرنے کی گنجائش پوری دنیا میںموجود ہے اور فاﺅنڈیشن نے یہ طریقہ کامیابی سے آزمایا ہے، ایک بے بس بچے کو سوا کروڑ کا چیک ملا، یہ اس کے ایک رشتے دار نے دیا مگر چیک باﺅنس ہو گیا۔ عدالت میں یہ مقدمہ برسوں چل سکتا تھا مگر فاﺅنڈیشن نے چندہفتوںمں بچے کو سوا کروڑ کا ڈرافٹ دلوا دیا۔ ایک بیوہ کے مکان پر قبضہ ہو گیا، قبضہ اس کی نوکرانی کی مدد سے ہوا، قبضہ گروپ بڑا ڈھاڈا تھا مگر کیپٹن شاہین بھی ہار ماننے والے نہیں تھے، بیوہ کو اس کے مکان کی چابی واپس دلوا کر اطمینان کا سانس لیا۔ایک معروف ڈیویلپر گروپ نے اوور سیز گاہکوں سے پورے پیسے وصول کرلئے تھے مگرفلیٹس یا مکانات کا قبضہ دینے سے حیلے بہانے سے ٹالا جا رہا تھا،فاﺅنڈیشن نے صرف بات چیت کے ذریعے ڈیویلپر کو قائل کیا کہ آپ ان لوگوں کا حق تو مار سکتے ہیںمگرا ٓئندہ کوئی ا وور سیز پاکستانی آپ کے ہاں سرمایہ کاری کے لئے نہیں آئے گا۔اور آپ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔یہ دلیل کام کر گئی اور اب تک بیشتر شکایات کا ازالہ کیا جاچکا ہے۔ میںنے کیپٹن شاہین سے پوچھا کہ کہ ایک طرف آپ کو اوور سیز پاکستانیوں کی جائیدادوں کے مسائل کے حل کی فکر ہے دوسری طرف حالیہ بجٹ میں پراپرٹی کے بزنس پر بے انتہانئے ٹیکس عائد کر دیئے گئے ہیں جن کی وجہ سے اوور سیز پاکستانی سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیںکیونکہ وہ اپنی جمع پونجی پراپرٹی کے بزنس ہی میں انویسٹ کرتے ہیں مگر اب انہوںنے ا س سے ہاتھ کھینچ لیا ہے، کیپٹن صاحب نے تسلیم کیا کہ یہ اوور سیز پالستانیوں کے لئے ایک مشکل ضرور کھڑی ہو گئی ہے جس پر سوچ بچار جاری ہے مگر حکومت کو آمدنی کے نئے وسائل کی تلاش سے روکا بھی نہیں جا سکتا۔
پاکستان کا عالمی سطح پر جو امیج بنتا چلا جا رہا ہے، وہ تشویش کا باعث ہے، اس مسئلے کو سنگین بنانے میں بھارتی لابی کا بڑا ہاتھ ہے اور اورسیز انڈین فعال اور سرگرم انداز میں پاکستان کے خلاف بلیم گیم کو آگے بڑھا رہے ہیں، اس مہم کامقابلہ کرنے کے لئے اوورسیز پاکستانی آگے کیوںنہیں آتے، یہ میرا سوال تھا۔کیپٹن صاحب نے کہا کہ بیرونی ممالک میں انڈنینز کی تعداد ہم سے کئی گنازیادہ ہے، وہ برسہا برس سے وہاں موجود ہیں، اس کے باوجود پاکستان ڈے پریڈ میں ہم بازی لے گئے ہیں، اس میں ہمارا جوش وخروش دیکھنے والا ہے بلکہ اس پر پاکستانیوں کو شاباش بھی دی جانی چاہئے، رہے ملکی مسائل اور پاکستان کا امیج تو یہ تاثر درست نہیں کہ اوور سیز پاکستانی اس سلسلے میں فعال نہیں ہیں، ہمارے بے شمار ادارے اور تھنک ٹینک سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر کشمیر کاز کو بڑھاو ادے رہے ہیں۔پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کا توڑ بھی کیا جارہا ے مگر دنیا میں بحیثیت مجموعی اس وقت مسلمانوں کا امیج خراب ہے جس کی ذمے داری بھی عالم ا سلام پر عاید ہوتی ہے کیونکہ دہشت گردی کی ہر واردات کے پیچھے کوئی مسلمان ہی نکلتا ہے۔یہ مسئلہ امریکی صدارتی الیکشن کی دوڑ میں بھی زیر بحث ہے اور ٹرمپ نے تو اس پر انتہا پسندانہ موقف اختیار کر رکھا ہے مگر اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے ہمارے پا س ایک دلیل ہے جسے امریکی انتظامیہ بھی قبول کرتی ہے کہ دہشت گردی کو کسی ملک یا مذہب سے جوڑا نہیں جا سکتا، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی اس موقف کی تائید کر چکے ہیں، ہمارے مﺅثر کردار کی وجہ سے ابھی تک اقوا م متحدہ نے آزادی کی جنگ کو دہشت گردی کہنے کی جرات نہیں کی۔
پنجاب کاا دارہ تو اسی صوبے سے متعلق شکایات کا ازالہ کر سکتا ہے، دوسرے صوبے کے اوورسیز پاکستانیوں کا کیا بنے گا۔ا س سوال کے جواب میں کیپٹن شاہین نے کہا کہ ہم دوسرے صوبوں سے بات چیت کر رہے ہیں، انہیںپیش کش کی ہے کہ وہ ہمارے ماڈل کی پیروی کریں، ہم سے بنا بنایا سافٹ ویئر لے لیں اورا وور سیز پاکستانیوں ی شکایات کا ازالہ کریں، اس سلسلے میں بہت جلد چند صوبوں سے اچھی خبر مل جائے گی۔
اوور سیز پاکستانی بحیثیت مجموعی محب وطن ہیں، وہ دامے درمے پاکستان کی مدد کر رہے ہیں، بیشتر پاکستانیوں کے خاندان ملک کے اندر ہیں، اس لئے بیرون ملک پاکستانی اپنے پیاروں کی خبر گیری کو اپنا فرض گردانتے ہیں، ماں باپا ورا ولاد کو باقاعدگی سے خرچہ بھجتے ہیں، یہ وہ زر مبادلہ ہے جس مین وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا ہے، کیپٹن شاہین نے کہا کہ اوور سیز پاکستانی عزت کے مستحق ہیں، ان سے سفارت خانوں کے اندر اچھا سلوک ہونا چہائے، انہیںامیگریشن والے مشکوک نظروں سے نہ دیکھیں۔کسٹم والے انہیں اسمگلر نہ سمجھ لیں، یہ اوور سیز پاکستانی ہمارا سرمایہ ہیں،قیمتی سرمایہ فراہم کرتے ہیں، ان کے زرمبادلہ سے ملک کا معاشی پہیہ چلتا ہے، اس لئے انہیں وی وی آئی پی درجہ ملنا چاہئے، ہم نے اپنی ایک سالہ سالگرہ پر کوئی چار سو اوورسیز پاکستانیوں کو نوے شاہراہ قائد اعظم پر مدعو کیا، وزیر اعلی نے ایک ایک سے پوچھا کہ کیا کسی کے کام میںمعاونت کے لئے پنجاب ا وور سیز فاﺅنڈیشن حق خدمت توطلب نہیں کرتا، سوا کروڑ کا ڈرافٹ موصول کرنےو الے بچے نے یہ کہہ کر محفل کو ششدر کر کے رکھ دیا کہ مجھے ڈرافٹ بھی ملا اور چائے سے تواضع بھی کی گئی۔اور اس حسن سلوک سے متاثر ہو کر اب میںنے شکاگو کو چھوڑ کر پاکستان میں مستقل رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن