مقبوضہ کشمیر میں جاری کشیدہ ماحول دن بدن تلخ سے تلخ ہوتا چلا جارہا ہے ۔ چار مہینے ہونے کو ہیں سرینگر کی مرکزی جامع مسجد میں نماز جمعہ کا اجتماع نہیں ہو سکا ہے۔جس طرح کا تشدد بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر میں کر رہی ہیں۔تاریخ میں ایسے ظلم و بربریت کی مثال کم ہی نظر آتی ہے ۔مگر افسوس کہ ہم سے کشمیری بھائیوں کی صیح طور پر وکالت بھی نہیں ہو سکی ہے ۔بہت سالوں سے ہم صرف پانچ مئی کو یکجہتی کشمیر کا دن منارہے ہیں۔سال میں صرف ایک دن ملک بھر میں چھٹی کر کے ہاتھوں کی زنجیر بنا کے علامتی فتح کے نشان بنا کے ہم یہ سمجھتے ہیں ۔کہ ہمارا فرض ادا ہو گیا ہے ۔کشمیر یوںکی نسلیں بھارت سے آزادی کا خواب دل میں لیے پیدا ہو تی ہیں۔اور یہ خواب آنکھوں میں سجائے پاکستانی جھنڈے میں دفن ہو جاتی ہیں۔جب سے بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے۔ کشمیری عوام نے کبھی ایک دن بھی بھارتی تسلط کو قبول نہیں کیا ہے ۔ہر دور میں کشمیر کے بہادر جوانوں نے اپنی آزادی کے لیے اپنے سینوں پر زخم کھائے ہیں۔ایک جوان شہید ہوتا ہے تو اس سے زیادہ جوشیلا کوئی اور نوجوان بھارتی فوج کے سامنے اپنے حق کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔ برہان وانی بھی ایسا ہی ایک کشمیری نوجوان مجاہد تھا۔ جس نے کشمیر میں بھارتی افواج کے بدترین ظلم و ستم کو دیکھتے ہوئے ہتھیار اٹھالیے تھے ۔ایک بیس سال کے بہادر مجاہد میں وہ جذبہ تھا جو کئی سو بھارتی سورماوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی تھا ۔اس مجاہد نے اپنی بہادری سے کشمیر کے بچے بچے میں آزادی کی مثل روشن کر دی ہے ۔ اور آج کشمیر کا بچہ بچہ اپنی آزادی کے لیے سر گرم ہے ۔ہماری نام نہاد این جیوز ڈالروں کے لالچ میں اپنے وطن کی فرضی کہانیاں بنا کے بیچنے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔مگر انہیں کبھی کشمیر میں بھارتی تشدد کا نشانے بنے کشمیری عوام پر ڈاکمنٹری بنانے کا خیال نہیں آیا ہے ۔دنیا میں آج کل مسلمانوں کے خلاف کچھ بھی بنا لیا جائے ۔ہاتھو ں ہاتھ بک جاتا ہے ۔اسلام اورپاکستان کے خلاف کام کرنے والے لوگوں کو باہر سے بڑی بڑی امدای رقوم ملتی ہیں۔بیرون ملک انہیں بڑے بڑے اعزازات سے نوازاجاتا ہے ۔ تو ہمارے ملکی میڈیا کو بھی ان پر پروگرام کرنے کی تلقین کی جاتی ہے ۔مگر افسوس ٟ ہم افسوس ہی کر سکتے ہیں ۔جب ہماری حکومتیں امداد لیتی ہیں ۔یا اپنی عیایشوں کے لیے قرض لیے جاتے ہیں ۔تو پھر ان کی سب باتیں ماننی پڑتی ہیں۔سب سے پہلہ حملہ وہ ہماری اقدار پر ہی کرتے ہیں۔جذبہ جہاد ختم کرنے کی جتنی کوششیں وہ لوگ کر چکے ہیں ۔اگر ان کے بس میں ہوتا تو عین ممکن ہے وہ اسلامی حکومتوں کو کہہ کر یہ کام کر گزرتے۔مگر کچھ چیزیں مسلم قوم کا خاص سرمایہ ہیں۔ان میں سے ہی ایک جذبہ جہاد ہے ۔ابھی چند دن پہلے کوئٹہ میں شہید ہونے والے کیپٹن کا سوشل میڈیا پر لگایا جانے والا سٹیٹس اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے ۔اس مجاہد نے لکھا تھا کہ ہم سب فوجی ہیں ۔ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے ۔نہ جانے کبٟ کس کی ملک کو ضرورت پڑھ جائے ۔اور جب ضرورت پڑی اس بہادر نے وہاں پہنچ کر اپنے خون سے اپنا وعدہ نبھا دیا ۔ جذبہ جہاد اور پاک فوج سے محبت کو مادیت پرست سمجھ ہی نہیں سکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی عوام اپنی فوج سے شدید محبت کرتی ہے ۔جب بھی بارڈر پر حالات خراب ہوتے ہیں ۔ہر کوئی فوج کے ساتھ کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے ۔ننھے بچوں کو فوج کے ساتھ محبت سکھانی نہیں پڑتی ہے ۔ان معصوموں کو جدھر بھی پاک فوج کے جوان نظر آئیں ٟبچے خود بخود ہی فوجی جوانوں کو سلام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہاں اے کشمیر میں بسنے والے مظلوم مسلمانو! ہم واقعی شرمندہ ہیں۔ کشمیری بھائیو اللہ جانتا ہے کہ پاکستان کے نوئے فیصد عوام آپ کے ساتھ ظالم دشمن کو للکارنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔مگر دس فیصد اشرافیہ نے عوام کو الجھا کے رکھا ہوا ہے ۔آج وقت تھا کہ ہماری سول حکومت اور دوسری سیاسی جماعتیں دنیا کو کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم سے آگاہ کرتیں۔اقوام متحدہ پر دباو ڈالا جاتا کہ جو قرار دادیں کشمیری عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے بھارت قبول کر چکا ہے ۔ان پر عمل کرایا جائے ۔ہمارے وزیر اعظم صاحب خرابی صحت کی وجہ سے بہت عرصہ منظر سے غائب رہے ہیں۔ اب وہ اپوزیشن کے تابڑ توڑ حملوں سے بچنے کی کو ششوں میں مصروف ہیں۔اگر انہوں نے کوئی باقاعدہ وزیر خارجہ بنا یا ہوتا ۔تو یہ ممکن تھا کہ ملکی سیاسی حالات چاہے جس ڈگر پر بھی چلتے رہتے ۔مگر ہمارا وزیر خارجہ بیرونی دنیا کو کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم سے بہتر طورپر آگاہ کر تا رہتا ۔ہماری سیاست میں یہ رواج نہیں ہے کہ مخالف سیاسی جماعت کے لوگوں کو اہم زمہ داریاں دی جا سکیں۔اگر ایسا ممکن ہوتاٟ تو دنیا کے سامنے بھارتی ظلم و جبر کا پردہ چاک کرنے کے لیے چوہدری سرور ٟشاہ محمود قریشی اور قمر زمان کائرہ جیسے لوگوں سے بھی کام لیا جاسکتا تھا ۔ اس وقت جب تحریک آزادی کشمیر پورے جوبن پر ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ساری قوم کشمیر ایشو پر ایک ساتھ کھڑی ہو ۔ہمارا میڈیا کشمیر میں عورتوں بچوں اور بزرگوں پر ہونے والے مظالم اقوام عالم کے سامنے پیش کرتا رہے ۔ مگر افسوس جو وقت ہم نے کشمیریوں کی حمایت کے لیے وقف کرنا تھا ۔وہ ہم اپنی سیاسی دکانداری چمکانے میں خرچ کررہے ہیں۔میڈیا صبح سے لے کر رات گئے تک سیاسی منظر نامے پر لائیو کوریج کرنے میں مصروف ہے ۔ہمارا کام صرف شو پیس نعرے لگانا نہیں ہے ۔بلکہ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔اللہ کرے یہ دھرنے والے اور ملک بند کرنے والے کسی بہتر حل کی طرف پہنچ جائیں۔ملک میں امن و امان قائم ہو ۔اور پھر ہم سب کشمیری عوام کی آزادی کے لیے کام کرسکیں۔