محبوبہ مفتی نے بے تکے بیانات کے ریکارڈ تو ڑ ڈالے بربریت جتنی انکے میں دیکھی پہلے نہ تھی کشمیرخاتون

سری نگر (بی بی سی) مقبوضہ کشمیر میں تین ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری احتجاج کی لہر، تشدد اور کرفیو کا کشمیریوں پر کیا اثر پڑا ہے؟ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے سرینگر کی رہائشی ایک خاتون نے بتایا کہ کٹھ پتلی وزیرِاعلیٰ محبوبہ مفتی نے حال ہی میں ایک تقریر کے دوران کہا کہ ان سے بڑا حقوقِ انسانی کا علم بردار کوئی نہیں۔ خاتون کے مطابق ایسے الفاظ جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا دیں، سیاستدانوں اور انتظامی افسروں کی تربیت کا اہم حصہ ہیں ورنہ یہ پولیس اہلکار نہتے آدمی یا بچے پر کیسے گولی چلائیں گے؟ ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی ہے کہ کشمیری آزادی کی جدوجہد نہیں بلکہ کسی کے بہکاوے میں آ کر 'سماج دشمن' حرکات کر رہے ہیں جس کا ازالہ سرکار کو کرنا ہے۔ خاتون کے مطابق ہمارے سیاستدان تو اکثر و بیشتر ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں مگر وزیرِاعلیٰ محبوبہ نے تو ریکارڈ ہی توڑ دیئے۔ کشمیر میں جس درجے کی بربریت ہم نے اس حکومت کے دوران دیکھی ہے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ معصوم بچوں کی آنکھوں اور جسموں کو چھرّوں کا نشانہ بنانا بھی اسی حکومت کا تحفہ ہے۔ جب ان بچوں کے بارے میں کسی صحافی نے سوا کیا تو وزیرِاعلیٰ نے جواب دیا کہ وہ بچے 'پولیس اور سی آر پی ایف کے کیمپوں پر حملہ کرنے گئے تھے ٹافیاں یا دودھ لینے نہیں۔' انشا کی آنکھوں میں چھرّے اس کے باورچی خانے کی کھڑکی سے لگے۔ عرفات کو پبلک پارک میں اور ریاض کو کام سے گھر جاتے ہوئے۔ یاسمین کو گولی اس کے گھر کے قریب ایک گلی میں ماری گئی جب وہ اپنے چھوٹے بھائی کو گھر کی طرف لا رہی تھی۔ شبیر کو گھر سے گھسیٹ کر شدید پٹائی کر کے مار ڈالا گیا اور آٹھ سالہ جنید گھر سے دودھ لینے ہی نکلا تھا جب اس پر چھرّے داغے گئے۔ یہ تو بس کچھ نام ہیں اور کس کس کی کہانی انسان بیان کرے؟ وزیرِاعلیٰ نے اوڑی حملے میں ہندوستانی فوجیوں کی موت پر 'شدید غم و غصے' کا اظہار کیا اور بھارتی فوجیوں کی موت پر انہیں 'تھوڑی سی پریشانی' ہوئی۔ انہوں نے حال ہی میں وزیرِاعظم مودی کو کشمیریوں کے زخموں پر 'مرہم' لگانے کو بھی کہا۔ اب ہمارے حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ کشمیر کے جانے مانے اور ایوارڈ یافتہ حقوقِ انسانی کے علمبردار خرم پرویز کو جیل میں بند کرنے والے خود کو اس کے مساوی بیان کرنے لگے ہیں۔ انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ایسے بیان دیتے ہوئے یہ لوگ کس دنیا میں ہوتے ہیں؟ کیا کبھی یہ اپنے ان الفاظ پر غور کرتے ہیں؟ کیا اس حکومت میں کوئی ایسا مشیر یا سپیچ رائٹر نہیں ہے جو ایسے بے تکے بیانات میں شعور کے کچھ قطرے ملا دے۔

ای پیپر دی نیشن