جب سے محکمہ لٹریسی کا قلمدان سنبھالا ایک عجب کشمکش طاری ہے۔ دن ہو یا رات چوہدری غلام قادر کا خیال ذہن پر سوار رہتا ہے۔ دفتر میں کوئی میٹنگ جاری ہو یا کھانے کی میز پر بیٹھے ہوں، غلام قادر میرے سامنے آ جاتا ہے اور مجھ سے کہنے لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب!
’’آپ دنیا کو میری کہانی کیوں نہیں سناتے؟؟؟‘‘
ـــڈاکٹر صاحب!
’’ اللہ نے آپ کوایسی وزارت دے دی کہ آپ لوہے کو سونا بنا سکتے ہیںاور سونے کو کندن!‘‘
ڈاکٹر صاحب!
’’آپ تو ملک و قوم کیلئے کچھ مثالی کر دینے کے عزم سے سیاست میں آئے تھے۔ آپ تو یہاں کے غریب عوام کی زندگیاں بدل دینا چاہتے تھے۔ قدرت نے آپ کو اس کا موقع دے دیا ہے، اب دیر کس بات کی!‘‘
وہ بھی عجیب آدمی تھا۔ پڑھنے لکھنے کی عمر میں کھیتی باڑی کرتا رہا اور محنت مزدوری کا وقت آیا تو اسے تعلیم کی لت لگ گئی۔ زندگی کی بیس سے زائد بہاریں اس نے جہالت کے اندھیروں میں گزار دیں اور پھر حافظ نذیر احمد آڑھتی اس کی زندگی میں ایسا آیا کہ یکسر سب کچھ بدل گیا۔
غلام قادر کھیتی باڑی کے بعد حافظ صاحب کے پاس بیٹھا کرتا اور چار لفظ پڑھائی لکھائی کے سیکھ لیتا۔ یہ چار لفظ کب چار سے آٹھ، آٹھ سے سولہ، سولہ سے بتیس، بتیس سے چونسٹھ اور پھر ایک سو اٹھائیس، دو سو چھپن اور پھرلا متناعی ہوگئے۔ اسکی خبر شاید حافظ صاحب اور غلام قادر دونوں کو نہ ہو سکی۔ غلام قادر کے دل میں علم کی جوت جاگ گئی تھی۔ یہ درست ہے کہ اب وقت اپنے بچوں کو پڑھانے کا تھا لیکن غلام قادر نے جان لیا تھا کہ تعلیم وہ روشنی ہے جو جس بھی وقت دل میں اتر جائے، جہالت کی شبِ تیرہ کو اجال سکتی ہے۔ اور ہوا بھی ایسا ہی! غلام قادر نے غالباً پچیس برس کی عمر میں میٹرک کیا اور پھر ایم اے او کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ میں نہیں جانتا کہ اپنے ہم جماعتوں میں غلام قادر کیسا محسوس کرتا تھا لیکن مجھے یہ ضرور معلوم ہے کہ اس نے ایف اے کیا، پھر بی اے اور پھر ایل ایل بی۔ آج سے پچیس تیس برس قبل جب میری ملاقات اس سے پہلی بار ہوئی، اس وقت وہ لاہور بار کونسل میں لیبر لاء کے معروف وُکلا میں شمار ہوتا تھا۔ یوں بطور قادرا، آنکھ کھولنے والے غلام قادر نے (اگرچہ بہت دیر سے) لیکن تعلیم حاصل کی اور دنیا سے رخصت ہوا تو معروف لیبر لائیَر، چودھری غلام قادر کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ خواندگی اور غیر رسمی بنیادی تعلیم کی وزارت سنبھالنے کے بعد عارف والا کی نواحی بستیوں میں جانے کا اتفاق ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ غلام قادر کی باتیں درست تھیں۔ کچے گھر، کھُلی نالیاں، کائی زدہ چھپر اور گارے میں لت پت ہوتا ہماری قوم کا مستقبل؛ درجنوں بچے پڑھنے لکھنے کی فکر سے بے بہرہ، کھیل کود میں مصروف تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ ان بچوں کو رسمی تعلیم کی طرف لانا ہماری وزارت کا کام ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے پنجاب بھر کے دور افتادہ علاقوں میں غیر رسمی بنیادی تعلیم کے12 ہزار سے زائد مراکز کام کر رہے ہیں۔ پھر ہم جنوبی پنجاب میں جام پور کی بستی گوجر والی گئے۔ جہاں سر کنڈوں سے بنے ایک گھر میں گاؤں کی بہو بیٹیاں کاغذ پنسل لیے بیٹھی تھیں۔ صحن کی کچی دیوار پر ایک تختہ سیاہ تھا اور زلیخا نامی خاتون انھیں اردو حروفِ تہجی لکھنا سکھا رہی تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ ہماری وزارت، تعلیمِ بالغاں کے ایسے مراکز کے ذریعے بڑوں کو بنیادی تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہی ہے۔ پنجاب میں تعلیمِ بالغاں کے ایسے تقریباً9 ہزار مراکز قائم کیے جا چکے ہیں جن میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملتان کی بستی کریم آباد میں اینٹوں کے ایک بھٹّے پر پہنچے تو میری روح کانپ اٹھی۔ بیسیوں بچے دھنسی ہوئی آنکھوں، جھلسی ہوئی رنگت اور ہڈیوں کے پِنجر میں زندگی کی رمق کو بھٹّے کی آگ میں شعلہ بار کررہے تھے۔ ہمیں بھٹّے کے پہلو میں ایک احاطے میں لے جایا گیا جہاں یہ بچے محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ تعلیم سے فیضیاب ہوتے ہیں۔
لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں پانچ ہزار سے زائد اینٹوں کے بھٹّے ہیں جہاں ہزاروں چھوٹے اور بڑے محنت کش پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے روز شراروں میں پگھلتے ہیں۔ خادم اعلیٰ پنجاب کی خصوصی ہدایت پر وزارتِ خواندگی اور غیر رسمی بنیادی تعلیم نے خطِ غربت سے نیچے کے ان افلاس زدہ محنت کشوں کیلئے بھٹّا سکولوں کے ذریعے تعلیم کا اہتمام کیا ہے۔ اس سلسلہ میں اب تک 207 بھٹّا سکول قائم کیے جا چکے ہیں اور تعلیم کے ایسے مراکز کی تعداد میں مستقل اضافہ کیا جا رہا ہے۔
میں نے لٹریسی کی وزارت میں آتے ہی جیلوں میں موجود قیدی بچوں اور بڑوں کیلئے بھی بنیادی تعلیم کا اہتمام کیا اور اس وقت محکمہ لٹریسی کے تحت پنجاب کی جیلوں میں 201 خواندگی مراکز قائم کیے جا چکے ہیں جہاں ہزاروں قیدی تعلیم کے نور سے منور ہو رہے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد بنیادی اخلاقیات، حفظانِ صحت کے اساسی اصول اور ضوابطِ حیات سیکھ جائیں تو سزاؤں کے بعد معاشرے کا صحت مند حصہ بن سکتے ہیں۔
تعلیم نہ صرف ہر انسان کا بنیادی حق ہے بلکہ کوئی معاشرہ اس کے بغیر خوش حالی اور ترقی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ اسی حقیقت کے پیشِ نظر ہمارا آئین ریاست کو کم از کم مدت میں ناخواندگی کے خاتمے کیلئے پابند کرتا ہے اور زور دیتا ہے کہ مفت ثانوی تعلیم کو یقینی بنایا جائے۔’’عالمی اعلامیہ برائے تعلیم سب کیلئے اور ’’عالمی اعلامیہ برائے انسانی حقوق‘‘ بھی ہم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ رنگ، نسل، جنس اور طبقاتی تفریق سے بالا تر ہو کر ہر شخص کے ابتدائی تعلیم کے حق کو تسلیم کیا جائے اور اس کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ انھی حقائق کے پیشِ نظر وزارت برائے خواندگی اور غیر رسمی بنیادی تعلیم، پنجاب اب تک مختلف جہات میں 22,273 مراکز قائم کر چکی ہے جن میں مجموعی طور پر تقریباً پونے6 لاکھ افراد غیر رسمی اور بنیادی سطح کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
مجھے خبر ہے کہ اب بھی ہزاروں غلام قادر کسی حافظ نذیر آڑھتی کے منتظر ہیں جو ان کے تاریک دلوں میں علم کی جوت جگا دے۔ میں نے جان لیا ہے کہ میرے ناتواں کندھوں پر وہ ذمہ داری آن پڑی ہے جس سے عہدہ برآ ہونا میرے ملک و قوم کے روشن مستقبل کیلئے ضروری ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ مجھے اُس پِسی ہوئی انسانیت اور اُن مقدر کے ماتوں کی خدمت کا موقع مل گیا ہے جو یقینا علم کے نور سے فیضیاب ہو کر میرے ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔
چلیں گے ساتھ تو وہ کہکشاں بنائیں گے
کہ نورِ علم ستاروں کو روشنی دے گا
ہمارا عزم ہر اِک رات کو اُجالے گا
ہمارا ولولہ سورج کو زندگی دے گا