حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں، میں علی بن عثمان ملک شام میں حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مووذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی قبر پر سورہا تھا خواب میں دیکھا کہ حضرت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باب بنو شیبہ سے (حرم شریف میں) تشریف لائے اور ایک بوڑھے شخص کو آغوش میں لیا ہوا ہے جیسے بچوں کو آغوش میں لیا جاتا ہے۔ تو میں نے دوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدم بوسی کی۔ میں حیران تھا کہ یہ بوڑھا شخص کون ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعجازاً میری اس کیفیت اور خیال سے مطلع ہوکر فرمایا یہ تیرا اور تیرے اہل ملک کا امام ابو حنیفہ ہے۔ پھر آپ اس خواب کی تعبیر یوں بیان فرماتے ہیں: ''اس خواب سے مجھے اور میرے اہل شہر کو بڑی امید بندھی۔ مجھ پر ثابت ہوگیا کہ وہ ان افراد میں سے ایک ہیں جو احکام شرع پر قائم ہیں۔۔۔آپ کا اسم گرامی 'علی' ہے ابو الحسن آپ کی کنیت ہے اور داتا گنج بخش آپ کا مشہور ترین لقب ہے۔ حتیٰ کہ اکثر لوگ آپ کو آپ کے نام ''علی'' کی بجائے آپ کے لقب ''داتا گنج بخش'' سے ہی جانتے ہیں۔ آپ افغانستان کے مشہور شہر غزنی میں 400ھ کے لگ بھگ میں پیدا ہوئے۔آپ کی ولادت ننھیالی گھر غزنی کے محلہ ہجویر میں ہوئی جس وجہ سے آپ کو ہجویری کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد حضرت سید عثمان رحمة اللہ علیہ جید عالم عظیم فقیہ اور بہت بڑے عابد و زاہد تھے۔ آپ کی والدہ بھی بہت عابدہ زاہدہ اور پارسا خاتون تھیں۔ آپ کے ماموں زہد و تقویٰ اور علم وفضل کی وجہ سے ''تاج العلمائ'' کے لقب سے مشہور تھے۔”فارسی نثر کی سب سے پہلی مذہبی کتاب جو برصغیر پاک و ہند میں پایہ تکمیل کو پہنچی ” کشف المحجوب” ہے اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری نے لاہور میں مکمل کی”کشف المحجوب اپنے موضوع اور مباحث کے اعتبار سے ایک بلند پایہ تصنیف ہے۔
کشف المحجوب میں جورموز طریقت اورجن حقائق معرفت کو منکشف کیا گیا ہے ان کی بنیاد حضرت داتا صاحب نے اپنے مکاشفات پر نہیں رکھی ہے بلکہ ان کا ماخذ قرآن و سنت کو قرار دیا ہے یا دنیائے عرفان کی مستند کتابیں ہیں جن کا ذکر کشف المحجوب میں کیا ہے۔
داتا گنج بخش کے عرس کی مذ ہبی حیثیت اپنی جگہ مسلّم ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ لاھور کا سب سے بڑا ثقافتی تہوار بھی سمجھا جاتا ہے۔ داتا صاحب کا عرس اگرچہ صفر کی اٹھارہ تاریخ سے شروع ہوتا ہے مگر اس کی تیاریاں اس ماہ کا چاند دیکھنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہیں۔
یہ روایتی میلہ داتا گنج بخش کے مزار سے مینارِ پاکستان تک کے تمام علاقے پر محیط ہوتاہے۔ عقیدت مند مزار پر فاتحہ خوانی اور دعا اور میلہ میں خریداری کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں موجود تفریحی سہولتوں اور سرکس وغیرہ سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔
جو لوگ برس ہا برس سے داتا صاحب کے مزار پر حاضری دیتے ہیں ا±ن کا کہنا ہے کہ عرس کے دِنوں میں لاھور کی آبادی ڈیڑھ گنا ہوجاتی ہے۔ اگرچہ اس کے سرکاری اعداد وشمار موجود نہیں ہیں لیکن اس حقیقت کو سب مانتے ہیں کہ عرس کے دِنوں میں اندرونِ ملک سے اور غیر ممالک سے بھی بھاری تعداد میں لوگ لاھور آتے ہیں اور ع±رس کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ داتا گنج بخش کی تین روزہ تقریبات ہوتی ہیں اور ان کے دوران مزار پر چادر پوشی کا سلسلہ جاری رہتا ہے، زائرین فاتحہ خوانی کرتے ہیں، سلام پیش کرتے ہیں، منتیں مانتے ہیں اور ساتھ ہی مزار سے متصل مسجد کے احاطے میں تینوں دن مجالسِ مذاکرہ منعقد ہوتی ہیں جن میں دین ِ اسلام اور تصوف کے موضوعات کے ساتھ ساتھ سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کی سیرت وکردار پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ مزار پر دودھ کی سبیل لگتی ہے اور تینوں دن سماع کی محفلیں ہوتی ہیں جن میں شرکت کرنا ہر قوال پارٹی اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہے۔ آپ کے شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی ہیں۔ ان کے حالات قلمبند کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں"" میں نے آپ سے زیادہ بارعب اور صاحب ہیبت کوئی شخص نہیں دیکھا۔ صوفیوں کے لباس سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔ ایک مرتبہ میں آپ کو وضو کرانے کے لیے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ میں ایک آزاد آدمی ہوں آخر میں ان پیروں کی کیوں غلامی کروں جو قسمت میں لکھا ہے وہ ضرور پورا ہو گا۔ آپ نے فرمایا، بیٹا جو خیال تیرے دل میں پیدا ہوا ہے میں اسے جانتا ہوں، ہر کام کا ایک سبب اور ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ خدمت اور ملازمت آدمی کی بزرگی کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حق تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک سپاہی زادے کو تاج شاہی پہنا دیتا ہے۔
٭٭٭٭٭
برصغیر پاک و ہند کا دولہا
Oct 31, 2018