اسلام آباد(نامہ نگار)سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس میں نیب نے حتمی بیان مکمل کرلیا ہے جس کے بعد آئندہ سماعت پر نواز شریف بطور ملزم اپنا بیان قلمبند کرائیں گے۔ فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے خواجہ حارث کے سوال پر نیب کا اعتراض مسترد کر دیا۔ عدالت نے خواجہ حارث کو واجد ضیا سے ایون فیلڈ ریفرنس میں دیئے گئے بیان پر کنفرنٹ کرانے کی اجازت دی جبکہ واجد ضیاء نے کہا ہے کہ یہ کہنا درست نہیں کہ ریفرنس میں بدنیتی سے کام لیتے ہوئے پہلے مختلف بیان دیا اور اب کچھ الفاظ کا اضافہ کیا۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے تو نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے العزیزیہ ریفرنس میں شواہد مکمل ہونے سے متعلق حتمی بیان دیا اور کہا کہ العزیزیہ ریفرنس میں ہمارے شواہد مکمل ہو گئے ہیں۔ خواجہ حارث نے واجد ضیا سے پوچھا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا کہ حماد بن جاسم دوحہ میں بیان ریکارڈ کروانے کے لیے راضی ہیں۔ واجد ضیاء نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا،سپریم کورٹ نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی فیصلہ کرے کہ حماد بن جاسم کا بیان کہاں ریکارڈ کرنا ہے۔ جے آئی ٹی سے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کے معاملے پر جرح شروع ہوئی تو خواجہ حارث نے پوچھا کہ تصویر لیک کرنیوالے کا نام کیوں ظاہر نہیں کیا گیا، واجد ضیاء نے بتایا کہ یہ درست ہے کہ حسین نواز کی جے آئی ٹی پیشی کی تصویر لیک ہوئی، حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کے معاملے پر انکوائری کی تھی، تصویر لیک انکوائری کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی،سپریم کورٹ نے تصویر لیک کے ذمہ دار کا نام اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کا کہا،میں تصاویر لیک کرنے والے کا نام پبلک کرنے کا مجاز نہیں، سیکورٹی ایشوز کی وجہ سے شاید،جس پر خواجہ حارث نے ہنستے ہوئے واجد ضیا سے سوال کیا کہ کہیں تصویر لیک کرنے والے آپ خود تو نہیں؟ واجد ضیا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ نہیں سر، میں تو ایسے ہی سامنے کھڑا ہوں، جس شخص نے تصویر لیک کی وہ جوڈیشل اکیڈمی میں جے آئی ٹی کے ساتھ ہی منسلک تھا۔