اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) نجکاری کمشن کے بورڈ کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ 1990 ء کی دہائی میں نجی تحویل میں دیئے جانے والے متعدد سرکاری کاروباری اداروں کے 3 ارب 90 کروڑ روپے تاحال وصول نہیں ہوئے ہیں اور خریداروں نے ڈیفالٹ کیا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیاکہ ڈیفالٹرز سے یہ رقم وصول کرنے کے لئے تمام تر مساعی کی جائے گی۔ بورڈ کا اجلاس وفاقی وزیر نجکاری محمد میاں سومرو کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں نجکاری پروگرام کی فہرست میں شامل کرنے کے لئے اداروں پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں نجکاری کی موجودہ فہرست کا جائزہ لیا گیا۔ اس سلسلے میں بورڈ کے ارکان نے نئے اداروں کو متحرک فہرست میں شامل کرنے اور بعض اداروں کو اس فہرست سے خارج کرنے کے امور پر بورڈ کے ارکان نے تجاویز دی۔ نجکاری کی تازہ فہرست تیار کر لی گئی ہے جو حتمی منظوری کے لئے وفاقی کابینہ کی نجکاری کمیٹی میں پیش کر کے اس کی منظوری لی جائے گی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم نومبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان آنے والی ہے جس سے قرضہ پروگرام پر بات چیت ہو گی۔ ’نجکاری‘ بات چیت کا اہم ترین حصہ ہو گی۔ آئی ایم ایف بجلی کی کمپنیوں‘ پاکستان سٹیل ملز‘ پی آئی اے اور نقصان دینے والے دوسرے تمام سرکاری کاروباری اداروں کی نجکاری کی شرط رکھتا رہا ہے۔ پاکستان سٹیل ملز اور پی آئی اے کی نجکاری کیلئے ’ڈیڈ لائنز‘ مکمل نہ ہو سکی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت نے نجکاری کی متحرک فہرست پر دوبارہ نظرثانی کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان سٹیل ملز‘ پی آئی اے اور ڈسکوز کی نجکاری وقتی طور پر موخر ہو گئی اب پہلے مرحلہ میں نہیں ہو گی۔ ان اداروں کی پہلے تشکیل نو کی جائے گی جس کے بعد ان کو نجکاری کے لئے پیش کیا جائے گا۔ فہرست میں 60 کے قریب ادارے ہیں جن میں ایس ایم ای بینک‘ فرسٹ وویمن بینک‘ سوئی ناردرن‘ سوئی ساردرن گیس ‘ ماری پٹرولی‘ ایچ ای سی‘ نیشنل شپنگ کارپوریشن‘ ٹی آئی پی ہری پور شامل ہیں۔