بچے معصوم ہوتے ہیں اور ان کی معصومیت میں فرشتوں کی سی پاکیزگی ہوتی ہے، جو بڑے بڑے ظالم پتھر دل لوگوں کو بھی پگھلا دیتی ہے لیکن ہمارے آج کے معاشرے کی اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ بچیاں ہو یا بچے انسان نما درندوں کے ہاتھوں کوئی بھی محفوظ نہیں۔۔۔ جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات ہوں یا سکولوں ، مدارس میں مار پیٹ سے ہلاکتیں بچوں کی زندگیاں غیر محفوظ دکھائی دیتی ہیں ۔ کہیں بھوک اور افلاس کے ہاتھوں زندگی موت کی آغوش میں جا رہی ہے تو کہیں کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہ ملنے سے بچہ ہسپتال کے باہر سسک سسک کے دم توڑ دیتا ہے اور کہیں توحوالات میں معمولی جرم کی سزا پر تشدد موت بن جاتی ہے ۔ بچے جو کہ گھروں کی رونق ، والدین کے جینے کا سہارا ہوتے ہیں ۔ جن کی کلکاریاں ماں باپ کی ساری تھکن اتار دیتی ہیں ، جن کے پہلا قدم زمین پہ رکھتے ہی والدین کو ان کے اچھے مستقبل کی چاپ سنائی دینے لگتی ہے ۔ جن کے مستقبل کے خواب وہ اس وقت دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جب ابھی انہوں نے اس دنیا میں آنکھیں بھی نہیں کھولی ہوتیں ، لیکن وہی بچے جب زمانے کی ہوس ، شیطانیت ظلم ، بھوک ، افلاس اور بے حسی کا شکار ہو کے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں تو سوچیں ان والدین کے لئے کیسا قیامت کا سماں ہوتا ہو گا اور وہ کیسے اذیت ناک لمحے ہوں گے جب وہ اپنے ننھے جگر کے ٹکڑے لحد میں اتارتے ہوں گے اور پھر ان کی زندگی درد کی ان کہی داستان بن کے رہ جاتی ہے ۔
قصور ، چونیاں اور ملک کے دیگر حصوں میں بچوں پہ بیتی ظلم ، شیطانیت اور ہوس کی داستانیں انسانیت سے ہی ہمارا ایمان اٹھا دیتی ہیں ۔ کہیں ننھی پریاں اور معصوم فرشتے کسی گندی ، ہوس زدہ نگاہ کا شکار ہو جاتے ہیں تو کہیں بھوک اور افلاس ننھی جانوں کو نگل لیتی ہے اور کہیں کسی ظالم استاد کے ہا تھ لہو رنگ ہو جاتے ہیں تو کہیں سگے رشتے ہی روگ بن جاتے ہیں ۔ زینب بچی پہ بیتی ظلم کی درد ناک داستان کا انجام جب عمران نامی شخص کی پھانسی پر ہوا تو لگا کہ شاید اب معاشرہ جاگ گیا ہے ، اب آئندہ کے لئے ہماری اولادیں محفوظ ہو گئی ہیں ، لیکن اس کے بعد پے در پے جنم لیتے واقعات اور حال ہی میں چونیاں میں ہونے والا الم ناک واقعے نے ایسی تلخ حقیقت ہمارے سامنے عیاں کر دی ہے کہ اپنے اطراف انسان نہیں بھیڑیئوں کے ہونے کا گمان ہونے لگا ہے ، ایسے جیسے ہم انسانوں نہیں بلکہ کہیں حیوانوں کے دیس میں آ گئے ہیں ، آخر یہ اتنے بھیانک المیے جنم ہی کیوں لیتے ہیں ؟ زیادتی اور پھر قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات نے جہاں ہر صاحب دل اور عقل و فہم رکھنے والے شخص کو ہلا کے رکھ دیا ہے وہیں ہمارے معاشرے اور ہمارے رویوں پر بہت سے سوالیہ نشان کھڑے کر دئیے ہیں ۔ فرشتوں جیسی معصومیت لئے یہ ننھی کلیاں اور معصوم فرشتے کس ناکردہ جرم کی پاداش میں روندے جا رہے ہیں ؟
تھر جہاں بھوک اور خوشکسالی نے وہاں کی رعنائیوں کو ختم کر دیا ہے اور ہر طرف موت کا سناٹا چھایا ہوا ہے ۔ روٹی کے ایک ایک نوالے کو تر ستے معصو م بچے زندگی سے لڑ رہے ہیں ۔ موت کے مہیب سائے کب سے تھر پر گہرے ہیں ۔ پینے کے صاف پانی کی کمی ، غذائی قلت ،ادویات اور طبعی سہولیات کا فقدان ہماری حکومتوں کی بے حسی اور بے رحمی کا منہ بولتا ثبوت ہے موت کی دہلیز پہ کھڑے یہ بچے بھی زندگی کی آس رکھتے ہیں لیکن ان کا احساس کرنے والا کوئی نہیں۔ شیطانوں کی ہوس اور بھوک و افلاس کے شکار بچوں کے ساتھ ایک طرف وہ بھی بچے ہیں جو استادوں کی سنگدلی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ آئے دن اخبار بھرے پڑے ہوتے ہیں ایسے واقعات سے جہاں کہیں سنگدل ظالم استاد بچوں کو سبق یاد نہ کرنے پہ ایسی ایسی درد ناک سزائیں دیں کہ کوئی بچے معذور ہو گئے تو کہیں کوئی اپنی جان کی بازی ہی ہار گیا ۔ اسی طرح جیلوں میں بچوں کے ساتھ بد سلوکی اور تشدد کے واقعات عام ہیں ۔
یہ بچے جنہوں نے ابھی شعور کی دنیا میں قدم نہیں رکھا ہوتا ان کی قسمت میں تاریکی کیوں لکھ دی جاتی ہے آخر ان کی زندگی سے موت کے سفر کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا ہم سب بحیثیت قوم اس جرم میں برابر کے شریک نہیں ہیں ۔ جب تک حکومت وحشی درندوں کو جو بچوں کے جسم نوچتے ہیں ان کی سانسیں کھینچ لیتے ہیں ان کو سر عام پھانسی کی سزا نہیں دیتی۔ جو بچے بھوک ، افلاس اور غربت سے مر رہے ہیں ان کی نگہداشت کی ذمہ داری نہیں اٹھاتی ۔ جو بچے تشدد کا شکار ہوتے ہیں ان کیخلاف ٹھوس اقدامات نہیں کرتی اور ہم لوگ خود اپنی حد تک ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے تب تک ہمارے بچے یونہی مرتے رہیں گے اور ان کے ننھے جسم مٹی منوں مٹی تلے دفن ہوتے رہیں گے ۔
بچے جو کہ ہمارا کل ، ہمارا مستقبل ہیں ۔ جنہیں کوئی ملک کی امید کہتے ہیں اور کسی کے لئے منزل کا یقین کہلاتے ہیں ۔ جب تک ہم بچوں کی حفاظت کے لئے عملی اقدام نہیں کریں گے ان کا مستقبل محفوظ نہیں ہو گا ۔ ہمیں اپنے بچوں کو مرنے سے بچانا ہے اور ایک محفوظ روشن مستقبل دینے میں سب کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔ ہم اپنا آج محفوظ کریں گے تو کل روشن ہو گا ۔