مودی کا اصل چہرہ

مودی کے ہاتھ بے گناہ اور محکوم کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ شہید ہونیوالے کشمیریوں کی تعداد گزشتہ تین سال میں ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس میں شک ہی کوئی نہیں کہ مودی ہندوئوں کا ایک انتہا پسند لیڈر ہے۔ مودی گجرات کا وزیراعلیٰ تھا تو اُس نے وہاں بھی مسلمانوں کا قتل عام کرایا۔ اپنی وزارتِ اعلیٰ کے پیریڈ میں تین ہزار سے زیادہ مسلمان آر ایس ایس کے ذریعے قتل کرائے۔ مودی بھارت کی اس دہشتگرد تنظیم آر ایس ایس کا بھی کرتا دھرتا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتہا پسندی شروع سے ہی اُسکی سرشت میں بسی ہوئی ہے۔ بھارت میں بہت سی اقلیتیں ہیں جن میں مسلمانوں اور سکھوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ ان دونوں اقلیتوں کیخلاف اب تک جتنی بھی کارروائیاں ہوئیں ، اُن کی سرپرستی نریندر مودی نے خود کی ، ہندو ازم کا پرچار کر کے ہی مودی وزارتِ عظمیٰ کے اس اعلیٰ ترین منصب تک پہنچا۔ وزیراعظم کی منصبی ذمہ داری تو یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ریاست میں رہنے والے تمام سٹیزن کے جان و مال کی حفاظت کرے اور آئینِ ریاست پر عملدرآمد کرائے لیکن آئین میں اُنکے حقوق سے متعلق شق وار لاز کی موجودگی کے باوجود بھارت میں اُنکے تحفظ کیلئے کچھ نہیں کیا جا رہا۔
نریندر مودی سے پہلے کے تمام ادوار میں بھی اگرچہ سکھوں اور مسلمانوں کیخلاف کافی تشدد آمیز کارروئیاں ہوئیں لیکن ان تمام کارروائیوں کو حکومتی سرپرستی حاصل نہیں تھی۔ مقامی سطح پر اگرچہ ہندوئوں کے اقلیتوں کے ساتھ لڑائی جھگڑے ہوتے اور فسادات کے پے در پے کئی واقعات پیش آتے لیکن قانون حرکت میں آ جاتا اور ایسے واقعات اپنی لہر دکھا کر وقت کے ساتھ ہی معدوم ہو جاتے لیکن جب سے نریندر مودی برسراقتدار آئے ہیں ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ مودی اپنے انتخاب کا پہلا دور گزارنے کے بعد اب دوسرا دور گزارنے جا رہے ہیں، تاہم اپنے اقتدار کے ابتدائی مراحل میں ہی ملک بھر میں، خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں اسے گھمبیر حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں کہ اقلیتوں کیلئے جینا دوبھر اور بڑا مشکل ہو گیا ہے۔ کشمیر کے مسلمان زیادہ گھمبیر حالات میں ہیں۔ 85دن سے زیادہ ہو گئے ہیں اُن کے گرد بھارتی فوج کے حصار کو۔ وہ کرفیو میں ہیں اور پورا کشمیر سیل ہے۔ بازار، دکانیں، مارکیٹیں اور ہول سیل کے سب مراکز بند ہیں۔ سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کو تالے پڑے ہوئے ہیں۔ زندگی ہر طرح سے بند اور مفلوج ہے۔ خورد و فروش کی کوئی چیز نہیں مل رہی۔ جس سے گھروں میں فاقوں کی نوبت ہے۔ عالمی میڈیا اگرچہ ان حالات کی نشاندہی کرتا ہے، چند غیر ملکی چینل کچھ ایسے مناظر بھی دکھاتے ہیں، جو دیکھے نہیں جا سکتے اور انتہائی تکلیف دہ ہیں لیکن مجال ہے کسی کے سر پر کوئی جوں تک رینگے۔ سلامتی کا عالمی ادارہ بھی جسے سلامتی کونسل کہتے ہیں ، پاکستان کی جانب سے ’’معاملات‘‘ کی نشاندہی کے باوجود چپ سادھے ہوئے ہے۔ اُس کا ایکشن شاید امریکی اشارے کا محتاج ہے۔نریندر مودی کا وجود بھارتی اقلیتوں کیلئے خوف اور دہشت کی علامت بن گیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک بھارت میں دورِ مودی رہے گا، اقلیتوں کیخلاف ظلم و بربریت کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ عالمی جریدے کریڈٹ سوئس رپورٹ بھی اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کرتا ہے کہ بھارتیوں، خصوصاً، عام لوگوں کے ذرائع آمدن میں گزشتہ چند سالوں میں بہت کمی واقع ہوئی ہے جس سے عدم مساوات بڑھا ہے اور ٹینشن کا کلچر فروغ پا رہا ہے جس میں گزرتے دنوں کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خواتین کیلئے بھی ہندوستان ایک بدترین ملک بن گیا ہے۔ اُن کی عصمت دری کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔مختلف ذرائع سے ہونے والی معلومات اور بھارتی انٹیلی جنس اداروں کی اپنی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالے آپریشن کے باعث کشمیری نوجوان تیزی سے عسکریت پسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور انہوں نے بھار ت کیخلاف اعلانیہ اور غیر اعلانیہ گوریلا جنگ شروع کر دی ہے جس سے پورے کشمیر میں صورتِحال مزید خطرناک اور ابتر ہوئی ہے۔ مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے گائے ایشو پر قتل و غارت کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں۔ اس ضمن میں تشددپر مبنی واقعات معمول کا حصہ ہیں۔ ان واقعات کے باعث ہندوستانی روپے کی قدر بھی اب کافی گِر گئی ہے۔ ہندوستان میں یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ سپریم کورٹ کے چار ججوں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ’’بھارتی جمہوریت خطرے میں ہے‘‘۔ یہ بھی ہندوستان میں پہلی بار ہوا ہے کہ اُسکے وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹر سے خفیہ نوعیت کی کئی اہم دستاویزات چوری ہو گئی ہیں۔ عدم رواداری اور مذہبی انتہا پسندی گزشتہ 70سالوں کی نسبت ان دو سالوں میں سب سے زیادہ بڑھی ہے۔ ذاتی مشاہدہ کے بناء پر کہتا ہوں کہ اب بھارتی میڈیا بھی بُری طرح گراوٹ کا شکار ہے۔
ہم نے بھارت کے متعلق جو بیان کیا ہے، وہی حقیقت اور سچ ہے۔ یہ اعداد و شمار فرد واحدنے تیار نہیں کئے بلکہ مستند اداروں کی websideسے لئے گئے ہیں جو خفیہ نہیں رہے بلکہ ساری دنیا پر عیاں ہیں۔

ای پیپر دی نیشن