قائمہ کمیٹی کاقانون سازی معاملات پر مشترکہ سب کمیٹی بنانے کا فیصلہ

اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس چیئرمین کمیٹی ریاض فتیانہ کی سربراہی میں منعقد ہوا، اپوزیشن جماعتوںکے کمیٹی ارکان نے قانون سازی کے معاملے پر صدراتی آرڈیننس کی بھرمار پر سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے قانون سازی کے معاملات پر مشترکہ سب کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے قرار دیا کہ سب کمیٹی، چیئرمین قائمہ کمیٹیریاض فتیانہ اور پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر اور سینیٹ سے مسلم لیگ ن کے نمائندے ودیگر پر مشتمل ہوگی۔ وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم نے کہا ہے کہ وہ کمیٹی سے ہر قسم کا تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں ، مشترکہ نکات پر قانون سازی کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ سینیٹ نے جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کیخلاف ریفرنس کو جواز بناتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز تقرری کے بل کو مسترد کردیا۔ اب تو سینٹ جاتے ہوئے میرے پر جلتے ہیں۔ قومی اسمبلی کوئی بھی بل منظور کرے سینیٹ میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا اجلاس چیئرمین کمیٹی کی سربراہی میںبدھ کو پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ ۔ اجلاس کے دوران بلوچستان یونیورسٹی کے ہاسٹلز کے باتھ روم و واش رومز میں کیمرے لگائے جانے کا معاملہ بھی اٹھ گیا ہے، آغا حسن بلوچ نے انکشاف کیا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت جامعات کے معاملات کا اختیار وزیراعلیٰ کے پاس ہے مگر یہ اختیار گورنر کی طرف سے استعمال کیا جارہا ہے گورنر کو ایسا کرنے سے روکا جائے ، ہاسٹلز کے باتھ رومز میں کیمرے لگانے پر بلوچستان میں سخت تشویش پائی جاتی ہے اس کو ایجنڈے میں شامل کیا جائے ، قائمہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے عدالتی لباس و عدالتی انداز مخاطب کے نئے بل کی منظوری دیدی ہے۔ اس بل کے نتیجے میں 1980ء کا وفاقی اختیار کاقانون تحلیل ہو جائے گا اوریہ عدلیہ کی صوابدید ہوگی کہ ججز کا لباس کیساہوگا۔ سید نوید قمر،نفیسہ شاہ اور دیگر ارکان نے کہا کہ یہ بل آرڈیننس کی صورت میں لایا گیا تو اس کی مخالفت کی جائے گی۔ اصل مسئلہ انصاف کی بروقت فراہمی کا ہے۔ عالیہ کامران نے کہاکہ یہ عدلیہ کو خوش کرنا چاہتے ہیں انصاف کی حالت زار پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔ فاروق اعظم نے کہاکہ بڑے کیلئے اورقانون عام آدمی اور وزیراعظم کیلئے اور قانون ہے۔وزیر قانون نے کہاکہ عدالتی لباس کے بارے میں قانون کی جو بھی صورت ہو ارکان کو حمایت کرنی چاہیے ۔ نوید قمر نے کہاکہ آرڈیننس کو ہرگز سپورٹ نہیں کریں گے۔ وزیرقانون نے کہاکہ جب قانون سے متفق ہیں تو مخالفت کس بات کی ۔ نوید قمر نے کہاکہ ایک طرف قانون سازی کی بات کررہے ہیں دوسری طرف قومی اسمبلی کے ایوان کو بند کررکھا ہے۔ نفیسہ شاہ نے کہاکہ صبح اجلاس طلب کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے شام کو واپس لے لیا جاتا ہے ، شام کو اجلاس طلب کرنے کا اعلان ہوتا ہے تو صبح کو کوئی اور اعلان کردیا جاتا ہے بات وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے قانون سازی کے معاملے پر مصالحتی سیاست شروع کرنے کی ضرورت ہے ،سینیٹ کا تعاون مل جائے گا۔ وزیر قانون نے کہاکہ جہاں تک میرا اور وزیراعظم کا تعلق ہے اپوزیشن ہمارے بھائیوں کی طرح ہے ہم انہیں اپنا ساتھی سمجھتے ہیں ، اپوزیشن کی کاوشوں پر شک نہیں ہے مگر بعض چیزیں ہم سے متعلق نہیں ہیں ہم ان کے بارے میں کوئی اختیار نہیں رکھتے اور نہ ہی یہ ہمارے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ سید نوید قمر نے کہاکہ ہم متفقہ قانون سازی کی بات کررہے ہیں ۔ نیب آرڈیننس میں ترمیم لارہے ہیں،

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...