وان تصبروا وتتقوا فان ذلک من عزم الامور

قرآن پاک میں ارشاد ہے 
(مسلمانو!) تمہیں اپنے مال ودولت اور جانوں کے معاملے میں (اور)آزمایا جائے گا، اور تم اہلِ کتاب اور مشرکین دونوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اور اگر تم نے صبر اور تقویٰ سے کام لیا تو یقینا یہی کام بڑی ہمت کے ہیں
 ’’(مسلمانو! یاد رکھو) تمہیں لازماً آزمایا جائے گا تمہارے مالوں میں بھی اور تمہاری جانوں میں بھی۔‘‘
 ’’اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف سے اور بھوک سے اور مالوں‘ جانوں اور ثمرات کے نقصان سے‘‘۔تمہاری آزمائش کی جائے گی تمہارے مالوں میں بھی اور تمہاری جانوں میں بھی۔کان کھول کر سن لو کہ یہ ایمان کا راستہ پھولوں کی سیج نہیں ہے‘ یہ کانٹوں بھرا بستر ہے۔ ایسا نہیں ہو گا کہ ٹھنڈے ٹھنڈے اور بغیر تکلیفیں اٹھائے تمہیں جنت مل جائے گی۔ سورۃ البقرا میں ہے کہ ’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تو تم پر وہ حالات و واقعات وارد نہیں ہوئے جو تم سے پہلوں پر ہوئے تھے‘‘
’’اور تمہیں لازماً سننی پڑیں گی ان لوگوں سے بھی جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان سے بھی جنہوں نے شرک کیا بڑی تکلیف دہ باتیں۔‘
 یہ سب کچھ سنو اور صبر کرو۔جیسے رسول اللہ  سے ابتدا میں کہا گیا تھا ’’اور ان باتوں پر صبر کیجیے جو یہ لوگ کہتے ہیں اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ ہو جایئے‘‘۔ آپ کو کیا کچھ نہیں سننا پڑا۔ 
قرآن پاک میں ارشاد ہے
(اے نبی ) ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ( مشرکین)جوکچھ کہہ رہے ہیں اس سے آپ کا سینہ بھنچتا ہے‘‘۔ ان کی زبانوں سے جو کچھ آپ کو سننا پڑرہا ہے اس سے آپ کو تکلیف پہنچتی ہے‘ لیکن صبر کیجیے! وہی بات مسلمانوں سے کہی جا رہی ہے۔
 ’’اور اگر تم صبر کرتے رہو گے (ثابت قدم رہو گے) اور تقویٰ اختیار کیے رکھو گے تو بے شک یہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے۔‘‘
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی طرف سے کیسی کیسی تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا، کس مشکل وقت سے گذرنا ہو گا اور کن کن آزمائشوں کا سامنا رہے گا۔ قرآن کریم کو پڑھنے سمجھنے اور حقیقی معنوں میں عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ 
ایسی ہی ایک خبر فلسطین سے ہے۔ ایسی ہر خبر مسلمانوں کے دل پر حملہ کرتی ہے۔ خبر کچھ یوں ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کے شہر الخلیل کی تاریخی مسجد ابراہیم کو مسلمانوں کے لیے بند کر دیا۔اس وقت  الخلیل شہر میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں جب کہ چند سو غیر قانونی یہودی آبادکار بھی یہاں رہائش پذیر ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کی موجودگی کے باوجود اسلام دشمن طاقتوں کے اتحاد نے مسجد میں مسلمانوں پر پابندی کو یقینی بنایا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مقام فکر ہے۔ فلسطین کے مسلمان دہائیوں سے یہودیوں کے مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ 
مسجد ابراہیم کے امام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے یہودیوں کے مذہبی تہوار روش ہشنہ کی تقریبات کے موقع پر مسجد میں مسلمانوں کے داخلے پر دو روز کے لیے پابندی لگادی ہے اور مسجد ابراہیم میں صرف یہودیوں کو داخلے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
فلسطین کے تاریخی شہر الخلیل میں واقع مسجد ابراہیم مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے مقدس سمجھی جاتی ہے۔ مسجد ابراہیم میں حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب  علیہ السلام کی تدفین کی گئی تھی۔ اس لیے یہ مسجد مسلمانوں اور یہودیوں کے نزدیک نہایت اہمیت رکھتی  ہے۔ 
انیس سو چورانوے میں ایک یہودی کی فائرنگ سے انتیس نمازی شہید ہو گئے تھے۔ جس کے بعد قابض صیہونی انتظامیہ نے مسجد کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ تاریخی مسجد کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد ایک حصہ یہودیوں کے لیے مختص کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے دو ہزار سترہ میں مسجد کو دنیا کے آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ اس وقت  الخلیل شہر میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں جب کہ چند سو غیر قانونی یہودی آبادکار بھی یہاں رہائش پذیر ہیں۔
کیا تہذیب کے نام نہاد دعویداروں، انسانی حقوق کے دعویداروں کو یہ پابندیاں نظر نہیں آتی۔ مسلمانوں کو مسجد میں داخلے سے کیسے روکا جا سکتا ہے لیکن نام نہاد ایمانداروں کی آنکھوں پر مذہبی نفرت اور تعصب کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ مسلمان تقسیم ہیں، نااتفاقی کا شکار ہیں، قرآن کی تعلیمات کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ بالخصوص پاکستان میں ہمیں اپنے اپنے مسالک زیادہ عزیز ہیں۔ علماء کی سطح پر مسالک کے حوالے سے اتنی شدت پائی جاتی ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کو بھی تیار نہیں ہوتے یہ پیغام جب نچلی سطح تک جاتا ہے تو اس میں بے پناہ شدت آ جاتی ہے۔ علماء کو عوامی سطح پر اتحاد، اتفاق اور لوگوں کو جوڑنے والے پیغام کو عام کرنا چاہیے۔
پاکستان میں ختم نبوت کے حوالے سے ہمیشہ بہت حساسیت رہی ہے۔ عقل و شعور رکھنے والا کوئی بھی شخص ختم نبوت سے انکار نہیں کر سکتا۔ چونکہ یہ مسئلہ بھی ہماری تقسیم سے جڑا ہے اور مغرب اس مسئلے کو اپنے مذہبی تعصب کی وجہ سے ہر وقت ہم پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ ان دنوں بھی ملک میں اس حوالے سے خاصی شدت پائی جاتی ہے۔ حالات کشیدہ ہیں۔ حکومت تحریک لبیک سے مذاکرات کر رہی ہے۔ درحقیقت دونوں کے پاس مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں منفی سوچ کے حامل افراد نفرت پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ حکومت ناصرف مذاکرات کا راستہ کھلا رکھے بلکہ دوسری طرف منفی کرداروں کو بھی الگ کرنے کی کوشش کرے۔ ہمیں کسی بھی پرتشدد تحریک سے بچنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...