اسلام آباد (عبداللہ شاد - خبر نگار خصوصی) سینتیس برس پہلے آج کے دن بھارت بھر میں سکھوں کی تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی ہوئی۔ 31 اکتوبر 1984 کو انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے دو سکھ محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ کے ہاتھوں قتل ہو گئیں۔ اس قتل کے فوراً بعد دہلی میں سکھ قوم کے خلاف جنونی ہندوؤں نے ایک قیامت برپا کر دی اور صرف تین دن کے اندر چھ ہزار سے زیادہ سکھ خواتین اور بچوں کو زندہ جلا دیا۔ اس وقت کے مرکزی وزرائ جگدیش ٹائٹلر، ایچ کے ایل بھگت اور سجن کمار سمیت بہت سے حکومتی رہنماؤں نے بذاتِ خود سکھوں کی نسل کشی کے عمل میں حصہ لیا اور پورے بھارت میں سکھوں کی جان و مال اس قدر غیر محفوظ ہو گئیں کہ ’’خشونت سنگھ‘‘ اور جنرل ’’جگجیت سنگھ اروڑا‘‘ کی سطح کے سکھوں کو بھی اپنی جان بچانے کیلئے غیر ملکی سفارت خانے میں پناہ لینی پڑی مگر بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ان ہزاروں سکھ خواتین اور بچوں کے قتلِ عام کو جائز ٹھہراتے یہاں تک کہا کہ ’’جب کسی بڑے درخت کو کاٹ کر گرایا جاتا ہے تو اس کی دھمک سے ارد گرد کی زمین میں کچھ تو ارتعاش پیدا ہوتا ہی ہے اور درخت کی زد میں آنے والی گھاس پھوس ختم ہو جاتی ہے‘‘۔دنیا بھر میں رہنے والے سکھوں نے اس بھارتی بربریت کو فراموش نہیں کیا اور امریکہ میں قائم سکھ حقوق کی تنظیم ’’Sikhs For Justice‘‘ نے 31 اکتوبر 2013 کو مسز گاندھی کے قتل کی برسی کے موقع پر دس لاکھ سکھوں کے دستخطوں پر مبنی رٹ پٹیشن اقوامِ متحدہ کے ادارے UNHRC (یونائیٹڈ نیشن ہیومن رائٹس کونسل) میں داخل کرائی جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کے ہاتھوں ہونے والے سکھوں کے قتلِ عام کو عالمی سطح پر سکھوں کی نسل کشی ڈکلیئر کیا جائے۔
سکھ قتل عام