وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کا اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزرا ،مسلح افواج کے سربراہ ،ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی بی سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔قومی سلامتی کمیٹی کو کالعدم تنظیم کے احتجاج کی رپورٹ پیش کی گئی ۔اجلاس میں مظاہرین سے نمٹنے کی حکمت عملی پر غور کیا گیا ،اجلاس کے شرکاء کو کالعدم تنظیم کے بیرونی رابطوں سے متعلق بھی آگاہ کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ کالعدم تنظیم کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوں گے تاہم کوئی غیر قانونی مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائیگا،۔ریاست کی رٹ ہر صورت قائم رکھی جائیگی ، پولیس اہلکاروں کی شہادت کے ذمہ داروں سے کوئی رعایت نہیںبرتی جائیگی۔ کالعدم تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کو رہا نہیں کیا جائے گا تاہم ان سے بات چیت جاری رہے گی ۔مظاہرین راستے کھول دیں اور واپس چلے جائیں، بصورت دیگر قانون حرکت میں آئے گا ۔پنجاب میں رینجر ز کو تمام اختیارات دے دئیے گئے ہیں ،ضروری نہیں کہ میڈیا کو ہر بات کی تفصیل سے آگاہ کیا جائے۔مظاہرین کے تمام سوشل میڈیا اکائونٹس امریکہ ، برطانیہ ، بھارت اور سائوتھ افریقہ سے چل رہے ہیں۔
حالات کے تناظر میں قومی سلامتی کے فیصلوں کی اہمیت اپنی جگہ اور کالعدم ٹی ایل پی کا مؤقف اپنی جگہ اٹل ہے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اپنے شہریوں پر ان فورسز کو گولی چلانے کا حکم دے دیا جائے جو وطن عزیز کی سرحدوں کے محافظ ہیں۔اس میں شک نہیں کہ تمام فورسز حکومت وقت کے ماتحت اور اس کے حکم کی پابند ہیں مگر ارباب اختیار کو حالات کا اس تناظر میں ادراک ہونا چاہیے کہ جو مسائل مذاکرات خاص طور پر کالعدم تنظیم کے ساتھ کیے گئے تحریری معاہدوں کی پاس داری سے حل ہو سکتے ہیں۔ ان کیلئے پولیس اور رینجرز کو مظاہرین پر گولی چلانے کا اختیار دینا سمجھ سے بالاتر اور ایسا انتہائی اقدام ہے جو حالات کو سُلجھانے کے بجائے مزید اُلجھانے کا باعث بن سکتا ہے۔ حکومت مظاہرین سے جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے قاتلوں کو گرفت میں لانے کی بات کرتی ہے ،جو مظاہرین شہید یا زخمی ہو ئے ہیں، انکی ذمہ داری کون لے گا،یہ طے کرنا بھی ضروری ہے کہ ان شہداء کا خون بہا کون ادا کرے گا؟ حکمران کالعدم تنظیم سے نمٹنے کے لئے ریاست کی رٹ قائم کرنے پر مسلسل زور دے رہے ہیں ان مافیائوں سے نمٹنے کی ذمہ داری کس کی ہے جو عوام کو مسائل کی سولی پر چڑھا رہے ہیں۔ حکومت ملک سے منشیات فروشوں کا خاتمہ کر سکی ، نہ قبضہ گروپوں کا ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم خود اعتراف کر چکے ہیں کہ منظم مافیا حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف پہنچانے کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ملک میں لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ شہریوں کا مال محفوظ ہے، نہ جان۔حکومت گراںفروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے اس ضمن میں اصلاح احوال کیلئے جہاں جہاں ریاست کی رٹ قائم کرناضروری تھا وہاں تو تین سال میںکوئی ٹھوس اقدام اٹھایا نہیں جا سکا ،قدم قدم پر حکمرانوں کی نا تجربہ کاری اور سیاسی مصلحتوں سے کام لیا جا رہا ہے۔حکومت کالعدم تنظیم سے ماضی میں کیے گئے معاہدوں کی پاس داری کرتی تو آج حالات اتنے سنگین صورت اختیار نہ کرتے۔ حکومت مظاہرین سے توراستے کھلنے کا مطالبے کر رہی ہے اورخود اسلام آباد جانے والے راستو ں میں خندقیں پر خندقیں کھود رہی ہے اور راستے میں آنے والے پلوں کو کنٹینروں سے بند کر دیا گیا ہے۔ملک کا آئین اور قانون ایسے اقدام کی اجازت نہیں دیتا،ضد اور انا کی یہ روش حکومت اور عوام میں عدم اعتماد کی خلیج کا باعث بن سکتی ہے۔ ارباب اختیار نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو انکی رہی سہی سیاسی ساکھ بھی راکھ ہو جائیگی۔حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت نوشتہ دیوار پڑھے اور اپنے شہریوں کو خون سے نہلانے کے بجائے افہام وتفہیم کا ر استہ اختیار کرے ، حیرت ہے کہ وزیر داخلہ شیخ ر شید احمد ہفتہ رفتہ کے دوران قوم کو مسلسل یہ امید دلاتے رہے کہ کالعدم تنظیم سے مذاکرات کے ذریعے تمام مسائل حل ہو جائیں گے یہاں تک کہ انہوں نے کالعدم ٹی ایل پی کو پنجاب میں تیسری سیاسی قوت بھی قرار دیا مگر وزیر اعظم عمران خان کی سعودی عرب سے واپسی کے بعد وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے دعوئوں اور وعدوں سے یوٹرن لے لیا۔ حکومت فرانس کے سفیر کا معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانے کا فیصلہ کر چکی تھی ،وزیر داخلہ نے اس سے بھی ہاتھ اٹھا لیے حالانکہ کالعدم تنظیم کے قائدین میڈیا پر مسلسل کہہ رہے تھے کہ پارلیمنٹ جو بھی فیصلہ کرے گی ہمارے لئے قابل قبول ہوگا مگر وزیر داخلہ نے کہا کہ اپوزیشن نے تو پارلیمنٹ میں آنا نہیں پھر کہا جائیگا کہ اپوزیشن کو بلڈوز کر دیا گیا۔ اس سے بہتر ہے کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں نہ لایا جائے ،اسی طرح حکومت نے کالعدم تنظیم کے حوالے سے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد سے بھی لیت ولعل سے کام لیا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض وزرا معاملہ کو سلجھانے کے بجائے الجھا رہے ہیں حالانکہ حالات ایسی نہج پر پہنچ چکے ہیں جن سے پاکستان کی سلامتی کی دشمن قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ حکومت امن کے لئے مودی سرکار سے بات کرنے کیلئے تو تیار ہے، قومی سلامتی کو یقینی بنانے اور ملک سے سیاسی انتشار کے خاتمے کیلئے ہم وطنوں سے خلوص نیت سے بات چیت پر آمادہ کیوں نہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ کالعدم ٹی ایل پی کی قیادت اورکارکنوں کو عسکری پسند ٹولہ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ یہ دعویٰ حقیقت سے دور ہے۔یہ روش کسی طورپر قومی مفاد میں نہیں۔ارباب اختیار کو چاہیے کہ حالات میں بہتر ی لانے کیلئے افہام وتفہیم کا راستہ اختیار کریں تاکہ ملک میں امن قائم ہو سکے۔حکومت کو چاہیے کہ طاقت کا استعمال کرنے کے بجائے مظاہرین سے از سر نو مذاکرات کا ڈول ڈالے اور بات چیت کو کامیاب بنانے کیلئے اپوزیشن سمیت تمام سیاسی پارٹیوں ،دانش وروں اور بر گزیدہ علمائے اکرام کو مذاکرات کا حصہ بنائے تاکہ قومی سلامتی کو درپیش خطرات ٹل سکیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ فریقین ضد اور انا کے بجائے فہم وفراست ، دوربینی اور جذبہ الوطنی کا مظاہرہ کریں تاکہ اندرونی اور بیرونی بحرانوں میں گھرا وطن عزیز دشمنوں کے ناپا ک عزائم سے محفوظ رہ سکے۔ اس معاملہ کو شیخ رشید احمد اور فواد چوہدری کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا دانش مندی ہر گز نہیں۔
تحریک لبیک مارچ: فراست و بصیرت سے کام لیں
Oct 31, 2021