بابا گورونانک کے افکار

موضع تلونڈی تحصیل شرق پور ضلع شیخو پورہ کے ایک کھتری مہتہ کالو چند کے گھر حق شناسی دِ ل لے کر 15 اپریل  1469ئ(بقول ناہر سنگھ کیانی 20 اکتوبر سنہ 1469ء ) پیدا ہونے والے بچے کا نام نانک رکھا گیا جو بعد میں برصغیر پاک و ہند کے نامور صوفی بابا گورو نانک دیو جی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ایک دفعہ اُن کے والد نے کچھ رقم کسی منافع بخش کاروبار میں لگانے کے لئے دی۔ مگر اُنہوں نے گوشت خرید کر غریبوں میں تقسیم کر دیا۔ جب باپ نے جواب طلبی کی تو کہنے لگے کہ آپ ہی نے کہا تھا کہ کسی منافع بخش کاروبار میں لگا دو۔ چنانچہ اس سے بڑھ کر کیا منافع ہو سکتا ہے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ جب کاروبار میں وہ کامیاب نہ ہو سکے تو نانک کے بہنوئی نے جو نواب دولت خان لودھی کا دیوان تھا اُن کو نواب کے ہاں ملازمت دلا دی۔ نانک کو اناج کے گودام کی حفاظت پر مامور کیا گیا تو اُنہوں نے اناج لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ جب محافظ نے جواب طلبی کی تو کہنے لگے کہ خدا اناج اس لئے اُگاتا ہے کہ اُس کی مخلوق کو فائدہ پہنچے ۔ جب اناج مخلوقِ خدا کو دیا تو اس طرح وہ خدا کو پہنچ گیا۔ اور خدا اُس کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا جو اُس کی مخلوق کی مدد کرے۔ سکھوں کی مذہبی کتابوں میں لکھا ہے کہ گودام میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ چند سال ملازمت کرنے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔نوکری چھوڑ دی اور 30 سال کی عمر میں اپنے گائوں کے ایک مسلمان  بھائی بالا کو ساتھ لے کر گھر کو خیر آباد کہا اور مختلف تیرتھوں، خانقاہوں اور مقدس مقامات کا سفر اختیار کیا۔ اور مختلف بزرگوں اور صوفیوں کی صحبت سے فیضیاب ہوئے۔ ایک دفعہ بابا نانک ملتان پہنچے تو پیر برہان الدینؒ نے دودھ سے بھرا ہوا پیالہ اُن کے لئے بھیجا۔ اُنہوں نے پیالے میں چنبیلی کا پھول ڈال کر پیالہ واپس کر دیا۔ مرید نے پوچھا بابا یہ کیا ماجرا ہے؟ تو کہنے لگے کہ دودھ بھرے پیالے کا مطلب تھا کہ ملتان پہلے ہی صوفیائے کرام اور بزرگانِ دین سے بھرا ہوا ہے۔ تو میں نے معرفت میں جواب دیا کہ ایک پھول کی طرح میں بھی ایک کنارے میں پڑا رہوں گا۔ بہت سے بزرگانِ دین اورصوفیائے کرام جن میں شیخ اسمٰعیل بخاری، سید علی ہجویریؒ، بابا فریدؒ، علائو الدین ، جلال الدین بخاری اور مخدوم جہانیاں شامل ہیں کی صحبت میں بیٹھ کر روحانی پیاس بجھائی۔اسی وجہ سے بابا نانک صاحب کے مسلمان ہونے کا عقیدہ اُن کے زمانہ زندگی ہی سے مسلمانوں میں چلا آ رہا ہے(جنم ساکھی بالا 132)۔  بابا نانک نے خواجہ شکور صاحب کے مزار پر چلہ کیا تھا (تواریخ گورو خالصہ 244)۔ اُنہوں نے بعد میں اپنے نظریات اور مسلک کی تبلیغ شروع کر دی اور اپنے پیروکاروں کو قرآن کریم سے استفادہ کر کے واحدانیت پر عمل کرنے کی تلقین کی۔ بابا نانک درویش کے نام سے بھی مشہور تھے (جنم ساکھی بالا 139)۔بابا گورو نانک نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مختلف مذاہب کے تقابلی مطالعہ میں گزارا۔ اسلامی تعلیمات سے بے حد متاثر ہوئے اور اسلام کی سچائی اُن کے دل میں گھر کر گئی۔ سکھوں کی مذہبی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ بابا جی کو حکومت کے خلاف بغاوت کے الزام میں چکی پسنے کی سزا ملی۔ محافظ نے یہ دیکھ کر کہ چکی خود بخود آٹا پیس رہی ہے حاکم کو اطلاع دی۔ چنانچہ اُن کو فوراً رہا کر دیا گیا۔ مغل بادشاہ اکبر نے اُن کے افکار سے بے حد متاثر ہو کر اُن کو عبادت گاہ کے لئے زمین بطور تحفہ پیش کی جس کا سنگِ بنیاد میاں میر صاحب نے رکھا تھا اور اُس کو پانچویں گرو ارجن دیو نے تعمیر کر کے اُس کا نام ہری مندر رکھا۔ بابا جی اُونچ نیچ اور ذات پات کے قائل نہ تھے۔ وہ شودر اور بھنگی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بھی کھا لیتے تھے۔ اُن کا قول ہے کہ "غرور صاحبِ عرفات کو تاریکی میں پہنچاتا ہے اور اُسے پھر کبھی سجھائی نہیں دیتا"۔ بابا گورو نانک کا عقیدہ اور تعلیمات: بابو گورو جی نے کہا "دو یا تین حرف سے ایک لفظ بنتا ہے۔ الفاظ ہی سے جملے بنتے ہیں۔ اس طرح علم و عمل زمانہ بزمانہ ترویج پاتے رہتے ہیں"۔ اُنہوں نے کہا "خدا ایک ہے۔ خدا ہی نے یہ کائنات تخلیق کی اور وہی مالک و مختار کُل ہے۔ یہ سب تعلیم یعنی علم حاصل کرنا بیکار ہے۔ جب تک خدائے واحد کو نہ مانے اور اُس کی اطاعت نہ کرے"(پنڈت سنت نام محمود)۔ بابا گورو نانک کا عقیدہ تھا کہ خدا کی محبت کے بغیر انسانی زندگی بے کار ہے۔ اور حضور اقدسؐ کی محبت کے بغیر خدا کی محبت ممکن نہیں ہے اور یہی مقصدِ وحدت ہے"۔ باوجود یہ کہ آپ کی پیدائش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو ایک خدا کی بجائے کئی بتوں کی پرستش کرتے تھے لیکن بابا جی کا اللہ کی واحدنیت پر کامل ایمان تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے توحید باری تعالیٰ کے متعلق کہا ۔یعنی خالص توحید کا سبق پورے گورو سے مل سکتا ہے۔ بغیر اس کے نہیں (گرو گرنتھ صاحب راگ گوڑی محلہ5 صفحہ 184)۔ حضور اکرمؐ کی رسالت کا اقرار کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا "محمدؐ من تو کتاباں چار۔من خدائے رسول نوں سچا ای دربار"(جنم ساکھی ولائیت والی 247)۔ بابا نانک جی کا حضور سرور کائناتؐ کی رسالت اور چار کتابوں پر ایمان پختہ تھا۔ سری گرو گرنتھ صاحب کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ بابا صاحب نے اذان دی۔ نماز پڑھی۔ زکوٰۃ دینے اور روزے رکھنے کی تلقین کی اور حج بیت اللہ بھی کیا۔ اُن کا قرآن کریم پر ایمان پختہ تھا اور اُسے اللہ کا کلام مانتے تھے اور اُن کا باقی تین کتابوں پر بھی ایمان تھا۔ اُنہوں نے کہا "کل پروان کتیب قرآن " یعنی کل یگ میں خدا وند کریم نے دنیا کی ہدائیت کے لئے قرآن کریم منظور فرمایا ہے۔ لوگوں کو قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کے لئے آپ نے کہا "قرآن کتیب کمائیے"یعنی قرآن کریم پر عمل کرو۔ کر چانن صاحب ایویں ملے۔ اس سے جو روشنی ہو گی اُس میں خدا ملے گا۔ بابا جی نے ایک موقعہ پر کہا "توریت ، انجیل، زبور تریہہ پڑھ سُن ڈٹھے وید۔ رہیا فرقان کتیڑھے کل یگ میں پروان"۔میں نے توریت، انجیل، زبور اور وید پڑھ اور سن کر دیکھ لئے ہیں۔ قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جو دنیا کی ہدائیت کے لئے خدا وند کریم نے منظور فرمائی ہے۔فرمایا "پنج وقت نمازگزار ہے۔پڑھے قرآن کتیب قرآنا"(گورو گرنتھ صاحب سری راگ محلہ412-)۔ ترجمہ! پانچ وقت نماز میں قرآن شریف کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ سفر کے دوران بابا نانک ہر وقت جو قرآن کا نسخہ اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے وہ آجکل سرسہائے ضلع فیروز پور کے گردوارے میں آج تک محفوظ ہے۔ 1902ء میں بغداد میں ایک کتبہ دریافت ہوا تھا جس پر لکھا تھا "بزرگ گرو بابا نانک کی یاد میں جو اللہ کے ولی ہیں۔ نیک بندوں کے بادشاہ ہیں۔ یہ کتبہ ایسے ہی نیک بندوں کی مدد سے یہاں نصب کیا گیا ہے۔ اس پتھر پر تاریخ 1520ء درج تھی۔۔ بابا نانک کی حضورؐ سے محبت اور عقیدت اُن کی مدینہ منورہ میں حاضری سے عیاں ہوتی ہے۔ اُن کے ایک فارمولے کے تحت اگر کسی لفظ کے حروف کے اعداد میں آپ کے مجوزہ عدد گھٹائے بڑھائے جائیں تو حاصل جمع ہمیشہ 92ہو گا جو حضور اقدسؐ کے اسم گرامی کے عدد ہیں۔ گورو نانک کا مقصد وحدت یہ تھا کہ حضورؐ کے بغیر خدا کی محبت ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔ حسن ابدال کے گوردوارے میں ایک پتھر پر بابا نانک کے پنجے کا نشان لگا ہوا ہے جس کے متعلق سکھوں میں مشہور ہے کہ یہ پتھر پہاڑی سے لڑھکتا ہوا آیا تھا جس کو بابا جی نے ہاتھ سے روکا اور اس پر پنجے کا نشان بن گیا تھا اور پانی کا چشمہ بھی جاری ہو گیا تھا۔ پوری دنیا سے ہزاروں سکھ اپنے مقدس مقامات کی یاترا کے لئے ننکانہ صاحب اور حسن ابدال آتے ہیں۔ جب 1535ء میں بابا گورو نانک کا انتقال ہوا تو ہندئوں اور مسلمانوں میں تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ مسلمانوں کا دعویٰ تھا کہ وہ مسلمان اور حاجی تھے اس لئے وہ اُن کی میت کو اسلامی رسومات کے مطابق دفن کریں گے (تواریخ گورو خالصہ 63) ۔سردار خزاں سنگھ نے بھی مسلمانوں کے اصرار کی وجہ یہ بتائی کہ وہ نانک کو پکا مسلمان سمجھتے تھے (ہسٹری آف فلاسفی آف دی سکھ ریلجن 106) جبکہ ہندو بضد تھے کہ چونکہ وہ ہندو تھے اس لئے اُن کی میت کو جلائیں گے۔ وفات پر جب ہندئوں اور مسلمانوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور کسی بھی فیصلہ پر نہ پہنچ سکے تو کتابوں میں لکھا ہے کہ اُن کے جسد خاکی سے چادر ہٹا لی گئی۔ تو چند پھول پڑے ہوئے تھے جو آدھے ہندئوں نے لے کر جلا دئیے اور آدھے مسلمانوں نے لا کر ننکانہ صاحب میں دفن کر دئیے جہاں ایک عالیشان گوردوارہ بنا ہوا ہے اور ننکانہ صاحب کے نام سے مشہور ہے جہاںپوری دنیا سے سکھ ہر سال یاترا کرنے کے لئے آتے ہیں۔ بابا جی کی حیات میں اُن کے کسی پیروکار کی مجال نہ تھی کہ اُن کی تعلیمات کے مخالف کوئی قدم اُٹھا سکے ۔
لیکن اُن کی وفات کے بعد سکھ گرئووں کا گدی نشین کا سلسلہ شروع ہوا تو اپنے گرو کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کر کے ایک نئے مذہب کی بنیاد ڈالی اور اُن کے اُصولوں اور نظریات کو مسخ کر دیا۔ اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر بابا نانک کی تعلیمات پر اُن کے پیروکار کماحقہُ عمل کرتے تواُن کی قربت ہندئوں کی نسبت مسلمانوں سے زیادہ ہوتی لیکن اُنہوں نے اپنی باگ دوڑ آنکھیں بند کر کے ہندئوں کے ہاتھ میں دینا زیادہ پسند کیا۔ جس کی وجہ سے آجکل بے چینی ، بدامنی اور ہندو نفرتوں کا شکار ہیں۔ اب بھی اگر وہ ہوش کریں تو اُن کی سیاسی زندگی کی بہتری ہندئوں کی نسبت مسلمانوں کے ساتھ زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ 

بابو عمران قریشی سہام

ای پیپر دی نیشن