دنیا میں اموات کی تین بڑی وجوہات میں ایک کینسر بھی ہے۔کینسر کی تحقیقات میں جو باتیں سامنے آئیں ان میں عورتوں میں چھاتی کا کینسر عام ہے اور مردوں میں پروسٹیٹ کا کینسرسب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔انسانوں میں زیادہ تر کینسر ان کے لائف سٹائل کے ساتھ جڑے ہیں۔صرف دس فیصد کینسر جینیاتی یا وراثتی ہیں۔جبکہ پھیپھڑوں کا کینسر کا چانس دونوں جنس میں یکساں ہے۔چھاتی کا کینسر چالیس سال سے زائد عمر کی خواتین میں زیادہ ہوتاہے لیکن لڑکیوں اور جوان عورتوں میں بھی اس کے چانسز ہیں۔
چھاتی کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ ان کا عورت ہونا ہی ہے۔اس کے علاوہ اگر ایک عورت چھاتی کے کینسر میں پہلے مبتلا رہی ہے تو اس کو دوبارہ کینسر ہونے کے بہت چانسز ہیں یا خاندان میں پہلے کسی کو کینسر ہو چکا تو پھر باقی عورتوں میں چانس بڑھ جاتا۔ ماں کو کینسر ہوا ہے تو بیٹیوں میں چانس بڑھ جاتا ہے۔ لڑکیوں میں ایام کا وقت سے پہلے شروع ہونا (بارہ سال سے پہلے) ایام کا لیٹ شروع ہونا (پندرہ سال سے زیادہ) چھاتی کے کینسر کی وجہ ہیں۔کچھ عورتوں میں یہ دیر سے بند ہوتی ہے جو کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔جو عورتیں اپنے بچوں کو چھاتی سے فیڈ نہیں کرواتی۔ان میں ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر کا چانس زیادہ ہوتا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ٹرپل نیگیٹیو کا علاج ٹرپل پازیٹیو سے زیادہ مشکل ہے جو خواتین ابارشن کروا لیتی ان میں بھی چانسز ہوتے ہیں۔ موٹاپا اور جنک فوڈ کا بے تحاشا استعمال اور پھر جسمانی مشقت کا وقت کے ساتھ کم ہونا اس کینسر کو بڑھا رہا ہے۔ الکحل اور سگریٹ کا استعمال کرنے والی خواتین میں چھاتی کا کینسر کا چانس زیادہ ہوتا ہے جو عورتیں تیس سال کی عمر کے بعد مائیں بنتی ہیں اور جو ساری زندگی ماں نہیں بن پاتی تو ان میں بھی چانس زیادہ ہوتا ہے۔
یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ کسی عورت میں چھاتی کے کینسر کو فوراً سے بھانپ لیا جائے۔ کیونکہ پہلی سٹیج پہ علاج آسان ہوتاہے اور صرف ایک چھوٹے سے آپریشن سے ہی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے۔ چھاتی میں کوئی تبدیلی ظاہر ہوئی ہے تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرے۔ چھاتی میں کسی بھی قسم کی سوجن کا پتا چلنا، بغل یا چھاتی میں گلٹی کا محسوس ہونا، رنگت کی ہو یا ساخت کی ہو یا چھاتی کے اوپر ابھار یا ڈمپل کا بننا ایک سائیڈ یا دونوں سائیڈ کی چھاتی میں سختی کا آنا۔
اگر کوئی بھی علامت ظاہر ہو تو فوراً سے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ سب سے پہلا ٹیسٹ جو عام طور پر سکریننگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اسے میموگرافی کہتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا ایکسرے ہے۔ اور چھاتی میں پیدا ہونے والی ابتدائی علامات کی تشخیص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بھی ابتدائی علامات کی جانچ پڑتال کے لیے کیا جاتا ہے۔ اگر کینسر کی تشخیص نہ ہو رہی ہو یا شک ہو اور واضح علامات بھی ہوں تو سوئی والا ٹیسٹ سے یا آپریشن کے ذریعے چھاتی کا ایک ٹکڑا یا حصہ نکال کر لیبارٹری میں بھجوایا جاتا ہے۔جس سے تقریباً تشخیص مکمل ہوتی ہے۔اس کے علاوہ سی ٹی سکین اور ایم آر آئی بھی کروائی جاتی ہے جو اس کے پھیلاﺅ کے بارے بتاتی ہے۔اگر علاج معالجہ کی بات کی جائے تو وہ کینسر کی سٹیج پہ منحصر ہے۔اگر ابتدائی سٹیج پہ ہے تو سرجری کر کے متاثرہ حصہ نکال دیا جاتا ہے اور پھر ریڈیو یا کیمو تھراپی کی جاتی ہے لیکن بعض اوقات یہ کینسر پورے جسم میں پھیلا ہوتا ہے جس کے لیے کیموتھراپی یا ریڈیو تھراپی پہلے کی جاتی ہے تا کہ متاثرہ حصہ سکڑ جائے۔پھر سرجری کرکے سکڑے ہوئے حصے کو نکالا جاتا ہے۔ اگر تشخیص سے ہٹ کر بات کی جائے تو ہمارے معاشرے میں لوگ اپنی صحت پہ زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ اس کی کئی جوہات ہیں۔سب سے پہلی اور بڑی وجہ جہالت مطلب بیماری کی نوعیت کا علم نہ ہونااور توجہ نہ دینا ہے۔ اور علاج معالجے میں پہلی ترجیح گھریلو ٹوٹکوں اور پیروں ،فقیروں کے دم درود اور تعویذوں کو دیں گے۔کینسر کا علاج بہت مہنگا اور گورنمنٹ ہسپتالوں پہ مریضوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ اس لیے بہت سے مریضوں کو وہ علاج اور توجہ نہیں مل پاتی جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کی سکت نہیں ہوتی۔ کیونکہ غربت بھی ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے اور پھر مریض ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دے گی۔ کینسر کا علاج کسی حد تک موجود ہے۔خاص طور پر پہلی اور دوسری سٹیج پر۔ لیکن ہمارے ہاں پرائمری اور سیکنڈری کئیر پر توجہ بہت کم ہے اور ہم لوگ ہمیشہ بیماری کو ٹرشری کئیر پر توجہ دیں گے جب چڑیاں کھیت چگ گئی ہوتی ہیں۔ اگرچہ گورنمنٹ کی سطح پہ اب موذی مرض کے لیے کافی کمپین کی جاتی ہے لیکن پرائمری لیول پہ صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے مریضوں میں بیماریوں کی پہلی سٹیج پہ تشخیص ممکن نہیں ہو پاتی کیونکہ غربت بھی ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے اور پھر مریض ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دے گی۔بعض مریضوں کو کینسر کی آخری سٹیج پہ بس اتنا علاج چاہیے ہوتا کہ مرض کی تکلیف کو کم کیا جائے اور اس کی موت آسان بنائے جائے۔
٭....٭....٭