یہ سراسر میری ذاتی رائے ہے اور میرا گمان ہے کہ زیادہ تر لوگ میری رائے سے متفق نہیں ہونگے۔ بہرحال میں نے اپنی آنکھ سے جو دیکھا، اور اب جو دیکھا، اس کے پیش نظر اپنا تجزیہ پیش کررہا ہوں۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ آج کا پاکستان کسی لحاظ سے بھی 1971ء کے مشرقی پاکستان کے حالات سے مماثلت نہیں رکھتا۔ مشرقی پاکستان ہم سے ایک ہزار میل کی دوری پر واقع تھا، وہاں نہ فضائیہ تھی، نہ کوئی آرمرڈڈویژن ۔صرف ایک کورکمانڈر تھا۔ جس نے اپنی فوج کی مدد سے وہاں آپریشن کیا ۔ اس آپریشن کی کمان جنرل ٹکا خان کے ہاتھ میں تھی، فوج ایسی آبادی کیخلاف آپریشن کررہی تھی ،جس نے شیخ مجیب کی پارٹی کو 99فیصد ووٹ دیکر کامیاب کروایاتھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس خطے کی آبادی کی اکثریت پاک فوج سے ٹکراگئی تھی۔ ہم جنرل ٹکاخان کو کوئی کمک بھیجنے کی پوزیشن میں نہیں تھے ، لیکن انہوں نے فوجی آپریشن کے ذریعے اس حد تک امن قائم کردکھایا کہ ضمنی الیکشن میں ساری سیٹیں جماعت اسلامی نے جیت لیں۔ اور ان کی اس صوبے میں حکومت بھی قائم ہوگئی ۔ پاک فوج کا مقابلہ صرف وہاں کے عوام کے ساتھ ہی نہیں تھا،بلکہ فوج کے بنگالی عناصر نے بھی بغاوت کا اعلا ن کردیاتھا ۔ ایسٹ بنگال رجمنٹ کے میجر ضیاء الرحمن نے چٹاگانگ میں علمِ بغاوت بلند کیااور چٹاگانگ ریڈیو پربنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان بھی نشرکردیا گیا۔
مشرقی پاکستان کے عوام اور بنگالی فوج کی بغاوت کے باوجود جنرل ٹکا خان نے امن وامان قائم کرکے دکھادیا۔ اس پورے عرصے میں بھارتی فوج کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ مشرقی پاکستان کی سرحد پار کرسکے۔ یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھئے کہ مشرقی پاکستان کے حالات خراب کرنے کیلئے بھارت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے ملکوں ملکوں دورے کرکے دنیا کو اپنا ہمنوا بھی بنالیا۔ آج وزیراعظم نریندرمودی اعتراف کرچکا ہے کہ مشرقی پاکستان کو حقوق دلوانے میں ہر بھارتی نے کردار ادا کیا۔ بھارت کی ان ساری کوششوں کے باوجود دسمبر1971ء میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑی تو سترہ روز تک پاک فوج نے جنرل نیازی کی کمان میں بھارتی فوج کو کہیں سے بھی سرحد پار کرکے اتنا بڑاعلاقہ فتح نہیں کرنے دیاجہاں بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا جاسکے اور بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا جاسکے۔
16دسمبر کو بھارت نے ہیلی کاپٹر سے ڈھاکہ میں اپنی فوج اتاری اور جنرل نیازی کو سرنڈر پر مجبور کردیا۔ میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ پاک فوج فضائیہ اور ٹینکوں کی طاقت سے محروم تھی۔ایک ہزار میل کی دوری نے جنرل نیازی اور ان کی فوج کو بے دست و پا اور بے بس کرکے رکھ دیا تھا۔ اندراگاندھی ساری دنیا کو اپنے ساتھ ملاچکی تھی۔ پاکستان کا واحد دوست امریکہ اس کی مدد کیلئے آگے نہ بڑھا۔ حالانکہ وہ فوجی معاہدوں کی رو سے پاکستان کی مدد کرنے کا پابند تھا۔ مگر افسوس!اس کا بحری بیڑہ آبنائے ملاکا کو پار کرکے خلیج بنگال میں داخل نہ ہوسکا اور یوں پاکستان کے دولخت ہونے کا المیہ پیش آیا۔
کیا آج 1971ء کے مشرقی پاکستان کے حالات کو دہرایا جاسکتا ہے ۔۔۔؟میرا جواب نفی میں ہے۔ آج کے پاکستان میں اول تو آبادی کی اکثریت فوج کے خلاف نہیں ہے ۔دوسرے ، بھارتی مداخلت کیلئے فضا سازگار نہیں ۔ بھارت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر اس نے کوئی اوچھی حرکت کی تو پاکستان اپنے ایٹمی ناخن سے اسے کچا چباجائیگا۔
مشرقی پاکستان اور آج کے پاکستان میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ ڈھاکہ کے کمانڈر کے پاس صرف دو ڈویژن فوج تھی، آج کے پاکستان کا آرمی چیف بیس ، بائیس ڈویژنوں کی کمان کررہا ہے ، یا شاید اس سے بھی کہیں زیادہ۔ائرفورس کی طاقت اس کے علاوہ ہے ۔ پاک فوج نے پچھلے بیس برسوں میں ایسے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا ہے جو سنگلاخ پہاڑوں کی چوٹیوں اور اونچی غاروں میں مورچہ زن تھے۔ اور انہیں بھارت کی مکمل پشت پناہی اور سپورٹ حاصل تھی ۔ افغان حکومت ان کو شہہ دے رہی تھی ۔ امریکہ اور نیٹو افواج بھی انہیں پاک فوج کیخلاف لانچ کرنے کیلئے ہر قسم کے مہلک اسلحے سے لیس کررہی تھی ۔ میرے خیال میں پاکستانی عوام کا جو طبقہ پاک فوج کیخلاف زبان طعن دراز کررہا ہے ، اورانہیں میرجعفراور میرصادق کی طرح کے غدار قرار دے رہا ہے،اس کے پیچھے بظاہر دنیا کی کسی طاقت کا ہاتھ نظرنہیں آرہا۔ پاک فوج کو بدنام کرنے کی ساری کوششیں محض چند جلسے جلوسوں اور سوشل میڈیا تک محدود ہیں۔عرف عام میں اسے ففتھ جنریشن واریا ہائبرڈ وار کہا جاتا ہے ۔
اس جنگ میں عوام کے ذہنوں میں زہربھراجاتا ہے اور انتشار و عدم استحکام کی فضا ہموار کی جاتی ہے ۔ اس جنگ کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے دفاع و سلامتی کی ضامن مسلح افواج کو تقسیم کردیا جائے ۔ اوراسے اس قدر کمزور و ناتواں بنادیا جائے کہ ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں کی موجودگی کے باوجود سوویت یونین کی طرح پاکستان کا وجود بھی خدانخواستہ بکھر کر رہ جائے اور پاک فوج کوئی مؤثر دفاعی کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہ جائے ۔ لیکن میرے نزدیک یہ تمام اندیشہ ہائے دور دراز ہیں ۔ یہ سب کچھ دیوانے کے خواب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ آج کے ایٹمی پاکستان میں کوئی شخص بھی شیخ مجیب اور بھٹو کی طرح اس قدر پاپولر نہیں ،کہ عوام اس کے اشارہ ابرو پر سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیں ۔ عمران خان پروپیگنڈا ضرور کررہا ہے ،لیکن وہ ملک کے چاروں صوبوں میں یکساں طور پر مقبول نہیں ہے۔اس کے مدمقابل قدآور سیاسی شخصیات بھی ملک میں موجود ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف ،سابق صدر آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اور میاں محمد نواز شریف جب میدان میں اتریں گے ، توعمران خان کی تنہا آواز کسی کو سنائی نہیں دے گی۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا عمران خان کو بیرون ملک سے کسی کی سرپرستی میسر ہے ۔ میرے تجزیئے کی رُو سے امریکہ پاکستانی فوج کو کمزور دیکھنا چاہتا ہے ۔ لیکن پچھلے آٹھ مہینوں سے عمران خان نے امریکہ کو رگیدنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ سائفرکا شوشہ بھی چھوڑا۔تو امریکہ عمران خان کا جوا کیونکر کھیلے گا…بھارت نے ہفتے کے روز بھنگڑے ڈالے ہیں کہ اکیلے عمران خان نے وہ کام کردکھایا ،جو ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی نہیں کرسکیںاوروہ پاک فوج کو سامنے کھڑے ہوکر للکارنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔بھارت نے بھنگڑے اس لئے ڈالے کہ عمران خان نے پاک فوج کو للکارا بھی ،اس کی تذلیل و تضحیک بھی کی ، اسے میر جعفر ومیرصادق کی طرح غدار بھی قرار دیا ہے ، اسے نیوٹرل اور جانور تک کہہ ڈالا ۔ مگر تمام بھنگڑوں اور لڈیوں کے باوجود بھارتی تجزیہ کار یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بھارت کو پاکستان میں پنگا نہیں لینا چاہئے۔ ورنہ یہ گلے کی ایسی ہڈی ثابت ہوگا ،جو نہ اگلی جاسکے گی، نہ نگلی جاسکے گی۔ تو کیا میں یہ کہنے میں حق بجانب نہیں ہوں کہ آج کاایٹمی پاکستان کسی لحاظ سے بھی مشرقی پاکستان کی نوزائیدہ مملکت سے مماثلت نہیں رکھتا،اوریہ 2022ء ہے ، 1971ء نہیں۔ پاک فوج کے ساتھ متھا لگانے والے لمحہ بھر کیلئے یہ ضرور سوچ لیں کہ دنیا بھر کی طاقتورافواج دہشت گردی کو نہیں کچل سکیں۔ مگر پاک فوج نے اللہ کے فضل وکرم اور عوام کی تائید سے دو عشروں کی قربانیوں کے بعددہشت گردی کاعفریت کچل کر رکھ دیا ہے ۔ اگر پاک فوج کے دو ڈویژن مشرقی پاکستان میں امن قائم کرکے دکھا سکتے ہیں ، تو آج کے پاکستان کے بیس، بائیس ڈویژن فوج کے مقابل کھڑا ہونے سے پہلے ہر کسی کو سومرتبہ سوچ لینا چاہئے ۔ عوام کی اکثریت پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور پاک فوج کا نظم و ضبط اس قدر مثالی ہے ،کہ کوئی طاقت بھی ملکی سا لمیت ،یکجہتی اور ہماری قومی آزادی کیطرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکتی۔