’’پاکستان میں صرف ایک ہی سیاستدان ہوا ہے ‘‘۔ بوڑھے جسٹس پٹیل کی آواز گونج اٹھی ۔ ہال میں موجود حاضرین کی نظریں ان کی جانب اٹھ گئیں۔ جسٹس دراب پٹیل نے مختصر وقفے کے بعد اپنی بات مکمل کر تے ہوئے کہا۔’’اور وہ ہیں محمد علی جناح‘‘۔ یہ مارچ 1989ء کا واقعہ ہے ۔ بینظیر بھٹو کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالے ابھی صرف تین ماہ ہی ہوئے تھے ۔ انہوں نے ’’بھٹو ۔ایک سیاستدان‘‘کے موضوع پر کراچی میں ایک انٹر نیشنل سیمینار منعقد کیا۔ مقررین میں جسٹس دراب پٹیل بھی شامل تھے جنہوں نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے بھٹو کو پھانسی دینے کی مخالفت کی تھی ۔ وہ اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے تین ججوں میں سے ایک تھے۔ چونکہ سیمینار کا اہتمام ذو الفقار علی بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے کیا گیا تھا اسلئے منتظمین کو توقع تھی کہ جسٹس دراب پٹیل پاکستان کے سب سے بڑے سیاستدان کے طور پر ذو الفقار علی بھٹو کا نام لیں گے ۔ منتظمین نے اسی امکان کے تحت جسٹس دراب پٹیل کا نام مقررین کی فہرست میں سر فہرست رکھا ہوا تھا۔ لیکن انہوں نے ایسا نہ کیااور ایک مرتبہ پھر وقتی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے سیاستدان کے طور پر حضرت قائد اعظم کا نام ہی لیا۔ یہی وہ خوبیاں تھیں جن کے باعث جسٹس دراب پٹیل کا نام ہمیشہ عزت و احترام سے لیاجاتا ہے ۔ جب جنرل ضیاء الحق نے 1981 ء میں عبوری آئینی حکم نافذ کیا تو پٹیل نے اس حکم کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا۔وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے جج کا عہدہ چھوڑ کر خاموشی سے اسلام آباد سے کراچی چلے گئے ۔ عدالتی فرائض سے سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے انسانی حقوق کی عملی جدو جہدکا آغاز کیا۔ ایلس فیض ، عاصمہ جہانگیر ، جسٹس فخر الدین جی ابراہیم ، آئی اے رحمٰن اور نثار عثمانی جیسے درد مند ، اہل فکر کے ساتھ مل کر پاکستان میں انسانی حقوق مشن کی بنیادرکھی ۔پاکستان میں جمہوریت کی تاریخ شروع سے ہی تابناک نہیں۔ 1951 ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں تقریر کرتے ہوئے لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ مسلم لیگ کے خلاف ووٹ دینا پاکستان کے خلاف ووٹ ڈالنا ہے ۔ مسلم لیگ کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی یہ تقریر جمہوریت اقتدار اور روایات کی کھلی خلاف ورزی تھی ۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ انہیں پنجاب اور سندھ کے عوام کی حمایت بھی حاصل تھی ۔ پورا معاشرہ اختلاف رائے کے اظہار کے جمہوری حق کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا۔ بھٹو بھی 1970ء کا الیکشن جیتنے کے بعد’’ شکست خوردہ عناصر‘‘ کے اظہار رائے کے حق سے بہت چڑتے تھے ۔ جسٹس دراب پٹیل 15مارچ 1997 ء کی صبح اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ ان کے بعد عاصمہ جہانگیر نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کمیشن کی سرگرمیوں کو زندہ رکھا۔ انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت پانے والی اس خاتون وکیل نے 11فروری 2018ء کو وفات پائی۔ پاکستان میں وکلاء کے دو انتخابی گروپ ہیں ۔ عاصمہ جہانگیر گروپ اور حامد خان گروپ۔ پچھلے ایک عرصہ سے وکلاء تنظیموں کے انتخابات میں عاصمہ جہانگیر گروپ کو واضح برتری حاصل رہی ہے ۔ حامد خان گروپ کی ناکامی کی اہم وجہ حامد خاں کی کم آمیزی بھی ہے کہ’ میر کارواں میں نہیں سوئے دلنوازی ‘ لیکن اس مرتبہ عاصمہ جہانگیر گروپ کے کرتادھرتا ، احسن بھون کے ن لیگ کی جانب جھکائو کو شاید وکلاء برادری نے پسند نہیں کیا۔ اسی لئے حامد خان کی روکھی طبیعت کے باوجود سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخاب میں حامد خاں گروپ ہی جیتا ہے ۔ جبکہ احسن بھون کی دلنوازی ، مہمان نوازی اور یار باشی میں کسی کوکلام نہیں۔اکتوبر کا مہینہ نہ ہی عاصمہ جہانگیر کی پیدائش کا مہینہ ہے اور نہ ہی وفات کامہینہ۔ لیکن یہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات کا مہینہ ضرورہے ۔ سو اس مہینے عاصمہ جہانگیر کانفرنس رکھ لی جاتی ہے ۔ اس طرح اس سے بہت سے انتخابی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس میں بڑے بڑے راست گو مقررین خطاب فرماتے ہیں۔ اسی لئے کشور ناہید نے اس کانفرنس کو ’’پورے سال میں دودن سچائی‘‘ لکھا ہے ۔ اس کانفرنس میں سندھ ، کے پی کے اور بلوچستان سے مقررین نے بہت ’’کھلی ڈلی‘‘ تقریریں کی ہیں۔ شاید یہی طرز کلام وزیر قانون کے استعفیٰ کا باعث بناہے۔
احساس گناہ بندے کا بڑی دور تک پیچھا کرتا ہے۔ اسی احساس گناہ کے تحت ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے والے لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خاں نیازی نے بھی ’’سانحہ مشرقی پاکستان تصویر کا دوسرا رخ ‘‘ کے عنوان سے ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل کتاب لکھ ڈالی ۔ جسٹس ارشاد حسن خاں کا ’’ارشاد نامہ‘‘بھی اسی قبیل کی ایک کوشش ہے ۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ نے بڑی کھری بات کی ۔ ان کے مطابق اداروں کو برا بھلا کہنے کی بجائے آئین توڑنے والے جرنیل اور غلط فیصلہ کرنے والے ججز کا نام لے کر تنقید کی جائے ۔ انہوں نے اس سلسلہ میں جسٹس منیر ، انوار الحق اور ارشاد حسن خاںکو بلیک لسٹ کیا ہے ۔ اس پر جسٹس ارشاد حسن خاں نے اخبارات میں اپنے کالم میں اپنے فیصلے’’ ظفر علی شاہ بنام حکومت‘‘کے حق میں لکھی دوسرے لوگوں کی تحریریں اور اخبارات کے اداریے نقل کئے ہیں۔ اس موقع پر کالم نگار بھی ’’ارشاد نامہ ‘‘کی اشاعت پر لکھے گئے اپنے کالم’’ جسٹس ارشاد حسن کا حسن اتفاق ‘‘سے ایک اقتباس پیش کر تا ہے :
’’جسٹس نسیم حسن شاہ بڑے دلچسپ آدمی ہیں۔ انہوں نے ایک انٹر ویو میں برملا کہا کہ ایسی عدالتی صورتحال میں جج بھی آخر انسان ہیں اور انہیں اپنی نوکری عزیز ہوتی ہے ۔ لیکن ہمارے جسٹس ارشاد حسن خاں نے ’ظفر علی شاہ بنام حکومت‘کے فیصلے سے اختلاف رکھنے والوں کو اپنی خود نوشت ’’ارشاد نامہ‘‘ میں مفاد پرست اور خوف خدا سے عاری قرار دیا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے : ’’میرے خلاف تمام جھوٹے پراپیگنڈہ کیلئے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ میں نے بحیثیت چیف جسٹس سپریم کورٹ ،جنرل مشرف کو تین برس دیئے اور انہوں نے اس کے عوض مجھے تین برسوں کیلئے چیف الیکشن کمشنر بنا دیا۔ میں چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ لینے کے لئے بالکل تیار نہیں تھا۔ لیکن مجھے یہ یقین دلایا گیا کہ آپ قانون اور آئین کے مطابق اپنے فرائض نبھائیں۔ ملک میں شفاف الیکشن کروائیں۔ آپ کے کام میں کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ سپریم کورٹ نے آپکی زیر صدارت ایک مقررہ وقت پرالیکشن کروانے کا حکم صادر کیا ہے لہذا آپ سے بہتر کوئی الیکشن نہیں کروا سکتا۔ چنانچہ قومی مفاد کی خاطر میں نے اس ذمہ داری کو اٹھایا‘‘۔ اب رہی سرکار کو الیکشن کروانے میں تین برس کی مہلت اور تین برسوں کی ہی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف الیکشن کمشنری کالم نگار کی رائے میں اسے محض حسن اتفاق ہی سمجھنا چاہئے ‘‘۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں ججز کی بلیک لسٹ
Oct 31, 2022