الیکشن کمیشن کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین فیصلے کے بعد رکن قومی اسمبلی نہیں رہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان نے جان بوجھ کر جھوٹی اسٹیٹمنٹ اور ڈکلیریشن جمع کرائی،توشہ خانے سے حاصل تحفے اثاثوں میں ظاہر نہ کئے الیکشن ایکٹ کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے۔ریفرنس میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا جائے ۔
الیکشن کمیشن کاعمران خان کو نااہل کرنے کا فیصلہ مبہم ہے اور واضح سقم نظر آرہے ہیں، نااہلی کے فیصلے سے عمران خان کو کوئی زیادہ نقصان نہیں پہنچا ہے،عمران خان کی نااہلی آرٹیکل (1)63-P کے تحت ہوئی،وہ صرف موجودہ اسمبلی کی مدت تک نااہل رہیں گے اورالیکشن کمیشن بطور مدعی عمران خان کیخلاف سیشن جج کی عدالت میں فوجداری مقدمہ درج کرائے گا۔ نااہلی کے بعد عمران خان ضمنی انتخابات میں جیتی گئی نشستوں پر حلف نہیں اٹھاسکیں گے۔ اگر گوشواروں میں کوئی چیز ظاہر کرنے سے رہ گئی تو قانون کہتا ہے الیکشن کمیشن 120دن میں فوجداری کارروائی کرسکتا ہے، گوشوارے جمع کرانے کی آخری تاریخ 31دسمبر 2021ء تھی اسلئے 30اپریل 2022ء کے بعد فوجداری کارروائی ممکن نہیں ہے، اب جبکہ فوجداری کارروائی ممکن نہیں تو عمران خان کو الیکشن کمیشن سزا نہیں سناسکتا، فوجداری کارروائی ممکن ہوتی تب ہی عمران خان کیخلاف مقدمہ چلتا جس میں انہیں تین سال کی سزا ہوسکتی تھی، اس صورت میں آئین کے آرٹیکل (1)63-H کے تحت عمران خان کو نااہل قرار دیا جاسکتا تھا، مگر عمران خان کو سزا ہوئی ہے نہ ان کیخلاف کوئی مقدمہ چلایا گیا ہے،الیکشن کمیشن نے صرف اس بنیاد پر عمران خان کو نااہل قرار دیدیا کہ انکی نظر میں گوشواروں میں کوئی کمی تھی۔
قانون کی رو سے (1)62-Fکے تحت نااہل کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں ہے، 62ون ایف کے تحت نااہل صرف سپریم کورٹ ہی کرسکتی ہے۔ قانون کے مطابق اسپیکر کوریفرنس الیکشن کمیشن بھیجنے سے پہلے خود عمران خان کو بلانا چاہیے تھا،جبکہ تحریری فیصلے کے مطابق عمران خان آئین کے آرٹیکل 63(1)(p)اورالیکشن ایکٹ 2017 کی سیکشن 137، 167 اور 173 کے تحت نااہل ہیں۔عمران خان کی نااہلی آرٹیکل 63 ون پی کے تحت اور انکی نااہلی الیکشن ایکٹ کی دفعات137 اور173 کے تحت ہوئی۔الیکشن کمیشن کے پاس دو آپشن تھے، پہلے آپشن کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فل کورٹ بنچ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 137کے تحت پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو کرپٹ پریکٹس کا مرتکب قرار دیکر انکا کیس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کو بھجوا سکتا تھا دوسرا آپشن الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس یہ بھی تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63ون(3) کے تحت چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو قومی اسمبلی اور سینٹ کی رکنیت سے پانچ سال کیلئے نااہل قرار دے سکتا تھا لیکن الیکشن کمیشن نے اس اسمبلی کی مدت کے وقت کا فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے قانونی، آئینی اور سیاسی اثرات زیادہ نہ ہونگے کیونکہ اس وقت عملی طور پر پی ٹی آئی خود ہی اسمبلیوں سے باہر ہے اور عمران خان حال ہی میں چھ نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں جسکا انہوں نے شاید حلف بھی نہیں اٹھانا تھا۔
یہ نہایت کمزورفیصلہ ہے، الیکشن کمیشن کو 63 ون پی کے تحت فیصلہ کرنے کا اختیار ہی نہیں، اسکے تحت کسی رکن اسمبلی کو تب ڈی سیٹ کیا جاتا ہے جب کوئی عدالت اسے سزا سنا ئے اور پھراس شق کے مطابق ڈی سیٹ کیا جاتا ہے۔عمران کے معاملے میں ایسا کچھ نہ ہوا ہے کیونکہ عمران خان رکن قومی اسمبلی رہے ہی نہیں، وہ مستعفی ہوگئے تو تب الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار ہی ختم ہوگیا۔ الیکشن کمیشن ٹرائل کورٹ یا اعلیٰ عدالت نہیں ہے کہ وہ کسی بھی شہری کے خلاف کوئی کیس سننا شروع کر دے۔ اسکا دائرہ کار الیکشن اور منتخب ارکان اسمبلی تک محدود ہے۔ عمران خان مستعفی ہوگئے اوراگر سپیکر نے ریفرنس بھیج دیا تو چیف الیکشن کمشنر کو کہہ دینا چاہیے تھا کہ عمران خان تو مستعفی ہوچکا ہے ، اسلئے اب اس ریفرنس کی ضرورت ہی نہیں، کیونکہ یہ ریفرنس ڈی سیٹ کرنے کیلئے ہی بھیجا جاتا ہے۔ اب دیکھناہے کہ کون زیادہ بڑا کھلاڑی ہے شطرنج کی بساط آخری مرحلہ میں داخل ہے اور آخری مرحلہ تک ٹھنڈے دماغ سے سوچنااورمخالف چالوں کاادراک کرکے بھرپور جوابی چالیں چلنا ہی بڑاکھلاڑی ہونے کا ثبوت ہے۔ مائنس نواز شریف، مائنس الطاف کے بعداب مائنس عمران خان فارمولہ اختیار کیاگیا ہے۔الیکشن کمیشن سے ایک اوراہم فیصلہ فارن فنڈنگ کیس کا آنا باقی ہے جسکے ممکنہ اثرات اور بطور جماعت تحریک انصاف اوراسکی قیادت پرنہایت گہرے ہونے کی امید ہے،جس سے انکی قانونی و عدالتی جنگ مزید طویل ہوجائے گی۔