شہیدِ ناموسِ شہہ دین
31 اکتوبر یوم شہادت کے حوالے سے خصوصی تحریر
مولانا محمد کلیم اللہ حنفی
Zarbekaleem313@gmail.com
10 اپریل 1875ء بمبئی میں ہندو دھرم کی کوکھ سے جدید فرقہ’’ آریہ سماج‘‘ نے جنم لیا، اس کا بانی’’ سوامی دیانند سرسوتی ‘‘تھا، وہ 1824ء میں کاٹھیاواڑ گجرات میں پیدا ہوا ، اس نے ہندو دھرم میںذات پات کو موضوع بنا کرمذہبی اصلاح پسندی کا آغاز کیا۔دیانندسرسوتی شاطر اور چرب زبان تھا اس وجہ سے اس نے کئی مناظرے کیے اور کتابیں بھی لکھیں۔ جس کا جواب بانی دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اپنی معرکۃ الآراء کتب’’ انتصار الاسلام ، قبلہ نما اور ترکی بہ ترکی‘‘ میں دیا۔ سرسوتی کی1883 میں وفات کے کافی عرصے بعد ان کی کتاب "ستیارتھ پرکاش" جو کہ قرآن پاک کے خلاف لکھی گئی تھی ، کو راج پال نامی شخص نے اپنے مکتبے سے شائع کیا۔اس کا اردو ترجمہ لاہور کے ایک ہندو پروفیسرسوامی پنڈت چمو پتی نے کیا۔ اس کتاب کی اشاعت سے مسلمانوں کے دینی و قلبی جذبات مجروح ہوئے رد عمل کے طور پر مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا لیکن راج پال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔اسی طرح اسی پنڈت چمو پتی کی تصنیف کردہ ’’رنگیلا رسول‘‘ نامی کتاب بھی راج پال نے اپنے مکتبہ سے شائع کر دی۔ جس میں مصنف نے آپؐ کی مبارک ازدواجی زندگی اور تعدد ازواج کو بھونڈے اور تمسخر انگیز پیرائے میں تحریر کیا گیا ۔ مسلمانوں نے راج پال کے خلاف قانونی کارروائی کی بہت کوششیں کیں لیکن برطانوی سرکار یہ کہہ کر معاملہ ٹالتی رہی کہ قانون میں گستاخ رسول کے خلاف کارروائی کی کوئی گنجائش نہیں۔
موچی دروازہ لاہورکے جلسہ عام میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے عشق رسول سے لبریز خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک ہفتہ کے اندر کوئی نوجوان میرے نانا کے اس ملعون گستاخ کو ہلاک نہ کرپایا تو حرمت رسول اللہ کی قسم یہ بوڑھا سید زادہ خود اپنے ہاتھوں سے یہ مقدس فریضہ سرانجام دے گا۔ شاہ جی کی اس بات کے جلسے کے شرکا ء کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ چنانچہ 24 ستمبر 1928ء کو یکی دروازہ لاہور کے ایک نوجوان خدا بخش نے گستاخ رسول پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن راج پال بچ نکلا۔ غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد7 سال کی سزاسنائی گئی ،19 اکتوبر 1928ء کو افغانستان کا ایک نوجوان عبدالعزیز لاہور آیا اور اْس نے راج پال کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا ۔اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبدالعزیز نے غلط فہمی میں اس کو راج پال سمجھ کر اس پر حملہ کر کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا اور اسے بھی حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنادی۔ہندو پبلشر راج پال پھر بچ گیا۔راج پال ان حملوں کے بعد نہایت خوفزدہ رہنے لگا۔ حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو سپاہیوں اور ایک سکھ حوالدار کو اس کی حفاظت پر متعین کردیا۔
جلسے جلوس میں شر کت کرنے والوں میں ایک نوجوان علم دین بھی موجود تھا۔ غازی علم دین 4 دسمبر 1908ء کو کوچہ چابک سواراں رنگ محل لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان پیشے کے اعتبار سے فرنیچر سازی کرتا تھا۔ علم دین کے کانوں میں شاہ جی کے پردرد الفاظ گونجتے رہتے تھے اس نے دل ہی دل میں ٹھا ن لی کہ کسی بھی قیمت پر اس گستاخ رسول کا کام تمام کرکے رہوں گا۔ چنانچہ علم دین گمٹی بازار میں پہنچے اور وہاں سے اپنے مطلب کی تیز دھار چھری لی۔اور راج پال کی دکان کا رخ کیا ، اس دکان میں کدار ناتھ اور بھگت رام بطور ملازم کام کیا کرتے تھے ،6 اپریل 1929ء کو غازی علم دین جذبہ ایمانی سے معمور ہو کر راج پال کی دکان پر پہنچا تو کدار ناتھ پچھلے کمرے میں کتابیں رکھ رہا تھا، جبکہ بھگت رام راجپال کے پاس ہی کھڑا تھا۔ راجپال نے درمیانے قد کے گندمی رنگ کے نوجوان کو اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیا، لیکن وہ سوچ بھی نہ سکا کہ موت اس کے اتنے قریب آچکی ہے۔غازی علم دین نے راج پال پر تیز دھار خنجر سے اس زور کا وار کیا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔یہ خبر کشمیر سے راسکماری تک غازی علم دین کی بہادری وجرات ایمانی کے حوالے سے جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ غازی علم دین کو گرفتار کر لیا گیا اور سیشن عدالت میں مقدمہ چلنے کے بعد 22 مئی 1929ء کو غازی علم دین کے لئے سزائے موت سنا دی گئی۔ یہ وہ موقع تھا جب قائد اعظم نے غازی علم دین کی سزائے موت کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی اور عدالت میں موقف اختیار کیا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ؐ کی ذات پر رکیک حملے کرنا اور عوام میں نفرت پھیلانا زیر دفعہ 135 الف جرم ہے لیکن راج پال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی اْس نے غازی علم دین کو اشتعال دلایا لہٰذا غازی علم دین کے خلاف زیردفعہ 302 قتل عمد کی بجائے زیر دفعہ 308 قتل بوجہ اشتعال کارروائی کی جائے جس کی سزا زیادہ سے زیادہ سات سال قید ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے متعصب ہندو جسٹس شادی لال نے اپیل مسترد کر دی اور غازی علم دین کو پھانسی کے لئے میانوالی جیل بھجوا دیا گیا۔ 31 اکتوبر 1929ء کو غازی علم دین کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
تاریخ لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ شہید کو میانوالی جیل صبح سات بجے تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ شہسوارِ شہادت کو آٹھ بجے پھانسی گھاٹ سے اتا رنے کے فوراً بعد بہیمانہ انداز میں نو بجے بغیر نماز جنازہ ہی دفن کر دیا گیا۔قانونی و اخلاقی تمام تقاضے پامال کر دیئے گئے شہید کی میت کو اس کی وصیت کے مطابق لاہور میں دفن کیا جانا تھا۔ اس مطالبے کو منوانے کیلئے مسلمانوں نے برکت علی محمڈن ہال میں علامہ اقبال کی زیر صدارت جلسہ کا پروگرام بنایا۔ یکم نومبر کو علامہ اقبال کے گھر جلسہ منعقد ہوا۔5 نومبر کو علامہ اقبال ،محمد شفیع اور دیگر افراد پر مشتمل وفد نے گورنر سے ملاقات کی۔ بالآخر گورنمنٹ نے عوامی احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔
شہادت کے15 دن بعدآخرکار غازی علم دین کا جسد خاکی بذریعہ ٹرین لاہور لایا گیا۔ مستند روایات کے مطابق غازی علم دین کے جنازے میں لاکھوں مسلمان شریک تھے۔ بھاٹی چوک لاہور سے لے کر سمن آباد تک لوگ ہی لوگ تھے۔ غازی علم دین کے جسد خاکی کو علامہ اقبال اور سیّد دیدار علی شاہ نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ جب غازی علم دین کو لحد میں اْتار دیا گیا تو مولانا ظفر علی خان نے چیخ کر کہا کہ کاش! یہ مقام آج مجھے نصیب ہوتا۔ یہی وہ موقع تھا جب علامہ اقبال کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے ’’ اسیں گلاں کردے رہ گئے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا ‘‘۔14نومبر 1929 ء کو غازی علم دین شہید کی وصیت کے مطابق انہیں بہاولپور روڈ کے قریب قبرستان میانی صاحب لاہور میں دفن کیا گیا۔جہاںاس خاموش قبر کی صدا ناموس شہہ دیںؐ کی صورت میںہمیشہ گونجتی رہے گی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛