تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہنے والا نام
31 اکتوبر یومِ شہادت غازی علم الدین شہید ؒ
حافظ غلام صابر
g.sabir1988@gmail.com
دنیا میں جب بھی کسی گستاخ نے حبیبِ خداؐکی شان میں گستاخی کی تو وہ دنیا ہی میں اپنے شرمناک اور عبرتناک انجام سے ضرور دوچار ہوا ہے۔ ''آریہ سماج تحریک'' اسلام کے خلاف ہندوؤں کی ایک انتہا پسند تحریک تھی۔ہندوؤں کی اسی متعصب جماعت کا ممبر راجپال ایک کتب فروش اور دیال سنگھ کالج میں اعزازی پروفیسر تھا۔اس کی لاہور میں ہسپتال روڈ پر کتابوں کی دکان تھی۔ اس نے رسوائے زمانہ کتاب ''ستیارتھ پرکاش'' شائع کر کے اسلام اور قرآنی آیات کا تمسخر اڑایا۔یہ کتاب دراصل سوامی دیانند کے ایک چیلے''مہاشاکرشن'' نے لکھی تھی چونکہ راجپال کو اس بات کا علم تھا کہ کتاب کے منظرِ عام پر آنے کے بعد مسلمانوں کے دلوں میں تیز و تند طوفان پیدا ہوں گے۔ ان طوفانوں سے بچنے کے لیے اس نے ''پروفیسر پنڈت چمیوتی لال'' کا فرضی نام بطور مصنف تحریر کردیا تا کہ اس کیخلاف کوئی قانونی کاروائی نہ ہو سکے۔
کتاب کی اشاعت کے بعد مسلمانوں کی طرف سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیااور ہر روز احتجاج اور گلی گلی جلوس نکلنے لگے۔ جب حالات حدسے زیادہ بگڑگئے تو حکومت نے راجپال کے خلاف زیرِ دفعہ 153 تعزیراتِ ہند مقدمہ درج کر لیا جس کے تحت عدالت نے 18 جنوری 1927ء کو ایک سال چھ ماہ قید با مشقت اور ایک ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی جو محض ایک مذاق تھا۔ پھر راجپال نے سیشن کورٹ میں اپیل دائر کی جس کی سماعت ''کرنل ایف سی نکوس'' نے کی۔ 8 فروری 1927ء کو عدالت کے فیصلے میں تخفیف کر کے سزا صرف چھ ماہ کر دی گئی۔ راجپال نے دوبارہ اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائرکی جس کی سماعت ''کرنل دلیپ سنگھ'' کی عدالت میں ہوئی۔ آخر کار چیف جسٹس ہائی کورٹ ''سرشادی لال'' کی ذاتی سفارش سے ملعون راجپال کو 4 مئی 1927ء کو با عزت رہا کر دیا گیا۔ جس کے بعداحتجاج اور جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
غازی علم دین شہید 3 دسمبر 1908ء کو رنگ محل لاہور کے محلہ چابک سواراں میں پیدا ہوئے۔آپ کے والدکا نام طالع مند تھا جو بڑھئی کاکام کرتے تھے اور اپنے فن میں کمال مہارت رکھتے تھے۔ جب آپ کی عمر پانچ سال ہوئی تو آپ کے والد نے دینی تعلیم و تربیت کے لیے اپنے محلے کی مسجد میں داخل کروا یا لیکن آپ ظاہری طور پر علم حاصل نہ کر سکے۔ جب طالع مند نے دیکھا کہ علم الدین تعلیم حاصل نہیں سکے تو انہوں نے آپ کو بڑھئی کے کام میں اپنے ساتھ لگا لیا۔ پھر 1929ء کے آغاز میں ماموں کی بیٹی سے آپ کی منگنی ہو گئی۔
31مارچ 1929ء کو دہلی دروازہ لاہور کے باہر ایک عظیم الشان احتجاجی جلسے میں امیرِ شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے پُر جوش خطاب کر کے اہلِ ایمان کے دِلوں گرما دیا، اور آپ نے دل میں فیصلہ کیا کہ اب گستاخ ِ رسول ؐکو جہنم واصل کر کے ہی دم لوں گا۔قتل کے روزآپ دو بجے کے قریب انارکلی ہسپتال روڈ پر اس ملعون کے دفترپہنچے جہاں کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد راجپال اپنے دفتر آگیا۔ وہ اپنی کرسی پر بیٹھاہی تھا کہ اتنے میں ہی علم الدین اس کے دفتر میں داخل ہوئے اور اسے للکارتے ہوئے چھُرا اس کے سینے میں گھونپ دیا۔ بدبخت زمین پر گرا اور دم توڑ گیا۔ اپنے مقصد میں کامیابی کے بعد علم دین سیدھے ''ودیارتن'' کے ٹال پر پہنچے اور وہاں لگے نلکے سے اپنے ہاتھ اور لعین کے خون کے چھینٹے دھوئے۔ اس دوران راجپال کے ملازموں کے شور مچانے پر چندہندو لڑکوں نے غازی علم الدین کو پکڑ لیا۔ علم الدین کو گرفتار کرنے کے بعد راجپال کی نعش کو میو ہسپتال پہنچا دیا گیا۔
غازی علم الدین کے خلاف پہلی ایف آئی آر انارکلی پولیس اسٹیشن میں''کیدارناتھ اور بھگت رام'' کی طرف سے درج ہوئی۔ ہر طرف خوف و ہراس اور بد امنی پھیل گئی تھی۔ ہندوؤں کی جانب سے جلسے جلوس اور احتجاجی ریلیاں نکالی جا رہی تھیں۔ دو سری جانب علامہ اقبال کی زیرِ صدارت مسلمان وکلاء پر مشتمل ''غازی علم الدین ڈیفنس کمیٹی'' بنائی گئی۔10 اپریل 1929ء کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لاہور ''مسٹر ای ایس لوئس'' کی عدالت میں زیرِ دفعہ 302 تعزیراتِ ہند مقدمے کی کاروائی شروع ہوئی۔ آپ نے عدالت کے ہر سوال کا مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ پھر سیشن کورٹ لاہور نے 22 مئی 1929ء کو آپ کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا۔ آپ کے والد کی جانب سے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ جہاں آپ کے وکیل ''محمد علی جناح '' جبکہ سرکاری وکیل ''دیوان رام لال'' تھاجبکہ مقدمہ کی سماعت ''جسٹس براڈ وے اور جسٹس جان اسٹون'' نے کی۔
قائد اعظم نے ایک موقع نے علم الدین سے کہا کہ وہ ایک بار قتل سے انکار کر دے پھانسی سے بچانا میرا کام ہے۔ جواب میں غازی صاحب نے فرمایا ''میں یہ کیسے کہ دوں کہ یہ قتل میں نے نہیں کیا مجھے اس پر ندامت نہیں بلکہ فخر ہے''۔ 17 جولائی 1929ء کو لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے فیصلے (سزائے موت) کو بحال رکھا۔ 3 اکتوبر 1929ء کو غازی صاحب کو گوجرانوالہ اور پھر وہاں سے میانوالی ڈسٹرکٹ جیل منتقل کر دیا گیا۔ 30 اکتوبر کو میانوالی جیل میں عزیز و اقارب سے آخری ملاقات ہوئی۔ 31 اکتوبر 1929ء سزائے موت پر عمل درآمد کا دن تھا۔ پھانسی کے وقت آپ نے رسے کو بوسہ دیا پھر مجسٹریٹ کا ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور خفیف سے اشارے کے ساتھ آپ کے پاؤں کے نیچے سے تختہ کھینچ لیا گیا۔
انگریزحکومت کا خیال تھاکہ اگر میت کو سرِ عام لاہور لایا گیا تو ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ جائیں گے جسے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن مسلمانوں کا احتجاج شدید سے شدید تر ہوتا گیا اور غازی علم الدین شہید ؒ کی میت کو لاہور میںلانے کا پُر زور مطالبہ کیا گیا۔میت لاہور لائے جانے پر لاہور چوبرجی کے میدان میں آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی اورمیانیصاحب میں سپرد خاک ہوئے۔