مشہود شورش
آغاشورش کاشمیری اس قافلہءحق و صداقت کا شہسوار ہے جو زمینی خداﺅوں، جابر حکمرانوں اور مغرور دماغوںسے ٹکرانے کو "نقطہ کائنات "اور "مقصدحیات " کا درجہ دیتے ہیں۔زندگی بھر اسی جد و جہد میں مصروف عمل آپ 1975 میںماہ اکتوبر کی 25 تاریخ کوہم سب سے جدا ہو کر اللہ پاک کے حضور پیش ہو گئے۔
بقول: شورش کاشمیری
"میں خطیب العصر ہوں شاہ امم کے فیض سے
ہر معاصر ہے میرے زور قلم کا خوشہ چیں
پاﺅں کی ٹھوکر پہ رکھتا ہوں جلال خسرواں
میرے آقا ،میرے مولا، رحمتہ اللعالمین "
آغا شورش کاشمیری کی زندگی کا ایک پہلو انتہائی نمایاں اور طاقتور ہے وہ ختمِ نبوت کی حرمت اور آقائے دو جہاں حضرت محمد سے عشق اور انگریز سامراج کے تخلیق کردہ فرقے مرزائیت سے اتنی ہی نفرت تھی جتنا تلوارکو زخم لگانے سے پیار ہوتا ہے۔ان کا اپنا یہ شعر ان کی شخصیت کو جانچنے، پرکھنے اور سمجھنے کے لیے انتہائی موزوں ہے۔
جی چاہتا ہے نعت پیمبر لکھا کروں
جب تک جیﺅں رسولِ خدا کی ثناءکروں
یہ آرزو ہے گنبدِ خضراء کے آس پاس
شاہ امم سے عرض تمنا کیا کروں
فرمایا کرتے تھے جو لوگ کسی جمال و کمال کے بغیر اپنے خدا ہونے پر اصرار کریں اور پھر گماں ہو کہ بڑے آدمیوں میں سے ہیں، انہیں نہ تو ذہن قبول کرتا ہے او ر نہ دل مانتا ہے اور نہ قلم کے ہاں ان کے لیے کوئی عزت ہے۔میں نے اس قسم کے خداو¿ں اور انسانوں سے ہمیشہ بغاوت کی ہے۔آپ کی پوری زندگی کی عظمت و افتخار،حسنِ جلال اور جمال و کمال آقائے نامدار کی ذات گرامی سے انمٹ عشق، غلامی اور آپکے ناموس پر مر مٹنا رہا ہے، خود فرماتے ہیں۔
جاں وقف کر چکا ہوں محمدکے نام پر
یہ ہے دلیل خاص میرے افتخار کی
تاریخ نام ہے انسانوں کی سرگزشت، جدوجہد اور فکرونظر کی خبر کا، بڑے اور عظیم شخصیات کی یہ خوبی اور کمال ہے کہ انہوں نے خود کو منوایا نہیں تاریخ انکی عظمت و اہمیت کے سامنے اپنے دامن و ظرف کو وسیع و عریض کر دیتی ہے اورقدرت ایسے لوگوں کے لئے پوری دنیا کو انکی مجلس بنا دیتی ہے۔میری بدقسمتی ہے کہ مجھے انتہائی عظیم انسان اور قدآور والد کی ہمراہی اور سرپرستی بہت کم عرصہ نصیب ہوئی اور میں سمجھتا ہوں کہ انکی خوش قسمتی تھی کہ ان کو مجھ جیسے نالائق کو زیادہ دیر برداشت نہ کرنا پڑا۔
انکی ایک تقریر جو انہوں نے مارچ 1967ء موچی دروازہ لاہور میں کی ، اس کے کچھ الفاظ میرے دل و دماغ میں اب آکر مزید واضح ہوئے ،وطن عزیز کے سیاسی حالات،حزب اقتدار کی گستاخیاں اور حزب اختلاف کی بد حواسیاں اپنا اپنا خبر نامہ جب چلائے نظر آتی ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حضرت شورش کاشمیری 56سال پہلے اس قوم سے مخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں۔آہ ! تمھاری غفلت سے بڑھ کر کوئی اچنبھے کی بات نہ ہوئی اور تمھاری نیند کی سنگینی کے آگے پتھروں کے جی چھوٹ گئے۔میں کیا کروں، کہاں جاو¿ں اور کس طرح تمھارے دلوں میں اتر جاو¿ں !یہ کس طرح ہو کہ تمھاری روحیں پلٹ آئیں اور غفلت مر جائے؟
جب میں شورش کاشمیری کی پوری زندگی کا مطالعہ کرتا ہوں تو ان کی جد و جہد آزادی اور جمہوریت کی بقاءکے تقریبا 18 برسوں پر محیط قید و بند کا لامتناہی سلسلہ مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ آخر یہ کون لوگ تھے؟ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سر زمین میں اس لئے بھیجا کہ وہ اس کے محبوب آخری نبی الزماں حضرت محمد کی عزت، ناموس اور حرمت کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دیں اور دنیاوی خداو¿ں، آمروں اور سیاسی مجرموں کو للکارتے رہیں۔
بقول :شورش کاشمیری
کچھ اس طرح سے مرتب ہے کاروان حجاز
بلال و بوذر و سلماں کے ہمرکاب ہوں میں
میرے قلم پہ ہے مولائے روم کا پر تو
حکیم شرق کے سینہ کا پیج و تاب ہوں میں
بقول: شورش کاشمیری
حضرت شورش کا شمیری کے متعلق کچھ کہنے، لکھنے اور بیان کرنے کے لیے انہی کے پا ئے کا ادیب، انشاپرداز،صحافی، شاعر، مورخ اور سیاست دان ہونا شرطِ اول بھی ہے اور تقاضہ زبان و بیان بھی۔
بقول: شورش کا شمیری
عہدِ انگریز سے اس دورِ ہمایونی تک
قید خانوں نے پکارا ہے کئی بار مجھے
خود میرے خون سے نکھری ہوئی تلواروں نے
مسکراتے ہوئے دیکھا ہے سرِ دار مجھے
نقل اصل کو ادا تو کر لیتی ہے مگر اس سے وفا نہیں کر سکتی۔میں نے بہت سے لوگوں کو ادب و انشا، صحافت، خطابت اور سیاست میں شورش کا شمیری کے انداز کی چغلی کھاتے دیکھا ہے لیکن کہیں نہ کہیں ایک ایسا مقام بھی آتا ہے جہاں ان کی شخصیت کا بھرم کھل جاتا ہے۔
کیا کہیں، کس سے کہیں اس دور میں کیا کیا ہوا
مختصر یہ ہے کہ جو کچھ ہوا اچھا ہوا
شورش کاشمیری ہونے کے لیے ''اقتدار اور سرکارسے انکار کرنا پڑتا ہے'' جبکہ''قلم سے فساد نہیں جہاد کرنا پڑتا ہے ''مجھے اس بات کا برملااعتراف ہے کہ میں والد محترم جیسی قدآور شخصیت کے کسی بھی علمی، ادبی اور فکری کوئی سی تحریرپر تبصرہ کرنے کا بالکل اہل نہیں ۔یہاں میں والد محترم کی چند تحریریں جو میری دانست میں بہت کم لوگوں کی نظر سے گزری ہوں گی اور جن کی ضرورت اور اہمیت آج کے اس دور کے اہل قلم کے لیے پیغام بھی ہے اور مشعل راہ بھی، پیش کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں۔آپ نے06 جنوری1958 ءمیں احتساب ِ نفس کے عنوان سے اپنے رسالے چٹان میںلکھا۔
''بہرکیف ضمیر اس بات سے ضرور مطمئن ہے کہ ہماری غلطیاں یا کوتاہیاں دماغ کے فیصلوں اور سامان کی قلتوں کا نتیجہ تو ہو سکتی ہیں لیکن ان میں دل کے ارادوں اور ایمان کی کمزوریوں کا کوئی دخل نہیں۔ہم نے ہمیشہ دل و ایمان کو وقت کی آلائشوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس ساری زندگی میں بڑے بڑے کافروں سے لے کر چھوٹے چھوٹے بتوں تک ہمیں ایک شخص بھی خدا اور رسول کو گواہ بنا کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اپنی کسی ترغیب یا تحریص یا پھر تشدد اور جبر سے ہمارے قلم اور زبان کا کوئی بول حاصل کیا ہو یا قدم کی کسی چاپ پر اس کی کوئی چھاپ ہو ''-ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔
''اس دولت کا کیا حاصل جو عزت کو محفوظ رکھنے سے قاصر ہے''۔
والدِ محترم کی تحریر میں تقریر کا مزہ او ر خطابت میں صحافت کا جادو ہوتا تھا کہتے ہیں۔
''جب موت لازم ہے تو پھر مقتل میں اس طرح جانا چاہیے جس طرح عروسی کی پہلی رات دلہا اپنی دلہن کے پاس جاتا ہے''۔
14 اپریل 1969 ء چٹان کے ایک اداریے میں لکھتے ہیں۔
''طاقت اس وقت خراب ہوتی ہے جب وہ تنہا اپنی ذات پر بھروسہ کرتی ہے اوراپنے گردو پیش ان لوگوں کوجمع کرتی ہے جس کا شعار محض خوشامد اور جس کا اپنا وجود حرص ہی کو منتہیٰ سمجھ لیتا ہے۔ تاریخی صداقتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حرص اور خوشامدکی دو آ تشہ شراب طاقت کے میخانے میں ہمیشہ منفی نتائج پیدا کرتی ہے ''آغا شورش کاشمیری اپنی کتاب'' تمغہ خدمت ''میں ایک جگہ لکھتے ہیں
''جن لوگوں کے ہاتھوں میں طاقت کی عنان ہوتی ہے اور دماغوں میں'' اختیارات کا غرور'' ان کے لیے اس دنیا میں سامانِ عبرت تو بہت ہے لیکن عبرت نہیں پکڑتے۔وہ خدا کے خوف کو متروکات سخن میں شمارکرتے اور تاریخ کے تازیانوں کو اپنے قہقہوں میں اڑا کر مطمئن ہوتے ہیں''۔
مجھے اس بات کا ادراک ہے اور پورا احساس بھی کہ جس طرح لوگ رات گئے تک جلسہ گاہ میں صرف اس لیے بیٹھے ر ہتے کہ آغا شورش کا شمیری کا خطاب کیونکہ آخر میں ہو گا اور حقیقتاًعوام سننے بھی آغا صاحب کوہی آتے تھے، وہ خطابت میں اپنے مرشد سید عطا اللہ شاہ بخاری کی طرح بپھرے ہوئے مجمعے میں سکوت اور پھر اس میں طلاطم پیدا کرنے کے فن میں پوری مہارت رکھتے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ
''میں لوگوں کی پیشانیوں سے موضو ع چنتا ہوں اور ان کے دلوں کی خواہشات کو ان کے سامنے بیان کرتا ہوں''۔یہاں مجھے والدِ محترم جناب آغا شورش کا شمیری کی لکھی ہوئی ایک نظم جو انہوں نے حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کی وفات پر لکھی تھی اس کا ایک بند یا د آرہا ہے خود شورش کاشمیری کے لیے آج کے اس گھٹن زدہ ماحول میں پورا اترتا ہے۔
کئی دماغوں کا ایک انساں، میں سوچتا ہوں کہا ں گیا ہے
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے، زبان سے زور بیاں گیا ہے
اگرچہ تیری مرگ ِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقین نہیں ہے
اتر گئے منزلوں کے چہرے، امیر کیا کارواں گیا ہے
میں اسی لیے اپنی طرف سے اپنے خیالات کو یہی ختم کرتا ہوں، صحافت اور خطابت کے اس شہسوار کے چند ارشادات مختلف موضوعات پرنقل کر رہا ہوں جو آنے والی نسل کو یہ باور کرانے میں حقیقتاً مددگار ثابت ہوں گے کہ اصولی صحافت اور جادوائی خطابت کسے کہتے ہیں اور بالخصوص معاشرے کے اس طبقے کے لیے جو آج بھی حق و سچ کے ساتھ کھڑے ہیں، ظلم و ستم کے خلاف ڈٹے اور اہل اختیار کے کروفر کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں۔ملکی سیاست کے حوالے سے ایک جگہ لکھتے ہیں۔
''ملکی سیاسیات میں قومی شخصیتوں کے اعمال و کردار کی جب تک نگرانی نہ ہو گی تو اس وقت تک ملکی سیاسیات میں ا±جلا کریکٹر پیدا ہونا محال ہے''- 25اپریل 1954ء کے ایک شمارے میں ایک جگہ پارلیمنٹ کے بارے میںآپ لکھتے ہیں ۔
''پارلیمنٹ کیا ہے، گلی ڈنڈے کا میدان ہے یا پھر چوپال جہاں سیاسی بیت باز اکٹھے ہوتے ہوئے اپنے دوحے سنا کر چلے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بڑی سے بڑی بات بھی بسا اوقات دو چار آدمیوں کے درمیان طے پاتی ہے اور پھر پارلیمنٹ کی کمزور وساطت سے مجبور عوام پر ٹھونس دی جاتی ہے''۔
آغا صاحب کی تحریروں اور تقاریر کو آج بھی پڑھا اور سنا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے آج کے حالات ِ حاضرہ پر تبصرہ کر رہے ہیں اپنے ایک اداریے جو 20 اکتوبر 1956 ء بعنوان'' دو تصاویریں'' میں لکھتے ہیں۔
''پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان مٹھی بھر سیاستدانوں کی اس کھیپ نے پہنچایا جو تقریبا گیارہ برس تک اس ملک کی سیاہ و سفید کی مالک بنی رہی اور جس نے سیاسی زاویے بدلنے میں کچھ شرم محسوس نہیں کی''- آج اس ملک کو آزاد ہوئے76برس بیت چکے ہیں،آج بھی اس ملک کے سیاسی حالات جوں کے توں ہیں۔ایسے ہی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں۔''ان لوگوں نے سیاست کے نام پرناٹک رچایا، ایک ہی وقت میں یہ لوگ، ہیرو، ہیروئن اور ولن کا پارٹ ادا کرتے ہیں۔ سیاست دان ملک و قوم کو ایک ایسے تماشائی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جو محض فلمی دھنیں سننے کی خاطر سینما ہا ل میں چلا جاتا ہے، جس کا اپنا کوئی نقطہ نگاہ نہیں ہوتا۔ملک کے اہل قلم کو مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے ایک جگہ لکھا! ''اہل قلم معاشرے کے حسن و قبح پر نقد و نظر کا حق رکھتے ہیں لیکن ادب کے معنی تنقید حیات ہی کے نہیں ہیں بلکہ تفسیر حیات، تطہیر حیات اور تعبیر حیات بھی ادب کے فرائض میں شامل ہے ۔
پاسبان حریت آغا شورش کاشمیری
Oct 31, 2023