ملمع کاری

Oct 31, 2023

غلام شبیر عاصم

کالم:لفظوں کا پیرہن 

تحریر:غلام شبیر عاصم 

 ملمع کاری 

ہمارے بچپن کے زمانہ میں جھگیوں کے باسی مٹی کے کھلونے بنا کر ٹوکرے میں سر پر اٹھا ئے گلی گلی گھومتے اور ڈگڈگی بجاتے ہوئے آوازیں لگا کر فروخت کیا کرتے تھے۔ڈگڈگی اور کھلونے بیچنے والے کی آواز"گھگھو گھوڑے لے لو"سنتے ہی بچے جھولیوں میں آٹا،گندم،چاول یا پیسے لے کر گھروں سے باہر آجاتے تھے.
اور گلی میں بیٹھے ہوئے بڑی بڑی مونچھوں اور گھنی بھنووں والے مرد سے کھلونے لیتے تھے۔جس نے عموما?? ڈبی دار تہبند باندھا ہوتا تھا،اور گھوڑوں،حقوں، گھگووں،چڑیوں، چھنکنوں،پیالیوں، گلاسوں،تھالیوں وغیرہ پر سفیدی پھیر کر اوپر مٹی کے تیل سے بنائے گئے مختلف رنگوں میں برش بھگو کر ایسی مینا کاری کی ہوتی تھی کہ بچے مٹی کا بنا ہوا بے جان گھوڑا لے کر اتنا خوش ہوجاتے تھے کہ جیسے تھوڑے سے آٹے کے عوض ان کی جھولی میں پوری کائنات ڈال دی گئی ہو یا انہوں نے واقعی اصلی گھوڑا خرید لیا ہو ، مٹی کے تیل مِلے مختلف رنگوں کی بو نتھنوں سے ہوتی ہوئی دماغ میں جاکر گویا احساسات کو رقم کرتی تھی جس کی یاد میرے جیسے کئی حساس لوگوں کے ذہنوں میں اب کبھی شاعری،کہانی،کالم یا مصوری کے کئی مناظر لئے کلبلاتی ہے۔در اصل کوئی بھی شے،منظر،بات یا کیفیت جب یاد آتی ہے تو انسانی یاد داشت کے اوراق پر اس کے پلٹ کر آنے کی کوئی خاص وجہ ہوتی ہے،جو انسان کو بعض دفعہ لمحہ بھر میں برسوں گزرے ہوئے ماضی میں لے جاتی ہے۔مٹی سے بنائے گئے ان کھلونوں یا گھگھو گھوڑوں پر مختلف رنگوں سے کی گئی وہ مینا کاری اور ملمع کاری مجھے آج ایسے مناظر اور صورت حال دیکھ کر یاد آئی ہے کہ ہمارے ملک کے سیاستدان بھی اپنے کام میں بڑے میناکار اور ملمع کار ہیں کہ وہ ہمیشہ بڑے"سیاسی"اور چالاک ثابت ہوئے ہیں۔ہمارے سیاست دانوں کے طرز سیاست نے تلخی حالات کے سبب بلکتے،سسکتے اور دھاڑیں مارتے ہوئے عوام کو ہمیشہ اپنی چالاکی کی ملمع کاری سے کام لیتے ہوئے جھوٹے وعدوں اور دعووں کے گھگھو گھوڑوں سے بہلایا ہے۔اپنی سیاست کی ڈگڈگی بجائی اور ہم عوام بچوں کی طرح ووٹوں سے جھولیاں بھر کر گھگھو گھوڑے لینے کے لئے ہمیشہ ان کی طرف امڈ آئے ہیں۔مگر عوام ان جھوٹے وعدوں اور دعووں کے گھگھو گھوڑوں سے تھوڑا ہی عرصہ بہلتے ہیں کہ ان گھگھو گھوڑوں سے سارا رنگ اور ملمع کاری اتر جاتی ہے اور اندر سے مٹی کے وہی کھلونے نکل آتے ہیں،جنہیں بچے گیلی مٹی سے کھیلتے ہوئے کئی بار خود بناتے اور ڈھاتے ہیں۔یوں سیاستدانوں کی مکاری عیاں ہوجاتی ہے اور عوام مایوس ہوجاتے ہیں۔دراصل سیاستدانوں نے ہمیں بے وقوف اور بچے سمجھا ہوا ہے۔اور ہم میں سے اکثر"بچے"تو ان کے بغل بچے بنے ہوئے ہیں جو سیاستدانوں کی مکاری اور منافقت کو ہمارے اندر بڑے اہتمام اور "خشوع خضوع"کے ساتھ رائج کررہے ہیں۔بلکہ"مشکیں بھر بھر کر" پانی ڈال کر مشقِ کسب میں شب و روز مصروف ہیں۔اس ملمع کاری نے ملک و ملت کا بہت نقصان کیا ہے۔سچ جھوٹ،سیاہ و سفید،اچھے برے اور جائز ناجائز میں فرق کرنا مشکل بنا دیا ہے۔اسی ملمع کاری کی"ضربِ کاری"کا نتیجہ ہے کہ ہم آج تک ہجوم سے قوم نہیں بن سکے۔ملمع کاری نے اس ملک و معاشرہ میں عجیب طرز سیاست اور اندازِ حکومت متعارف کروایا ہے۔عدالتوں کے فیصلہ میں بدعنوان،چور ڈکیت اور غدار قرار دیے جانے والے مجرموں کو آدھے عوام پارسا قرار دے رہے ہوتے ہیں،آدھے لعن طعن کے تیر برسا رہے ہوتے ہیں۔جبکہ کبھی کسی پاک صاف اور بے قصور شخص کو آدھے عوام اپنی سیاسی رنجش کی بنا پر جان بوجھ کر منافق،اسلام دشمن طاقتوں کا گماشتہ اور ایجنٹ کہہ رہے ہوتے ہیں۔ایسا کرنے سے ملک ہمیشہ بدامنی اور تذبذب کا شکار رہتا ہے۔جس سے ملک دشمن اپنی سازشوں میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ کلچر ہے جسے ملمع کاری نے جنم دیا ہے اور اس کلچر نے حقیقت کو ہمیشہ ہماری نظروں سے اوجھل رکھا ہے۔ہم ظاہری نقش و نگار اور چمک دمک کے خوبصورت سانپ سے ڈسے ہوئے وہ بدنصیب زہر زد لوگ ہیں جن کے ناک کان اور منہ سے خون بہہ رہا ہے اور جسم نیلے ہوچکے ہیں۔

مزیدخبریں