اسپیڈ بریکر

گلوبل ویلج                
اسپیڈ بریکر
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
ہم پاکستانیوں نے کسی اور شعبے میں دنیا کا مقابلہ کیا یا نہیں کیامگر ایک معاملے میں پوری دنیا کو پچھاڑ کر رکھا دیا ،پوری دنیا کو پیچھے دھکیلا دیا ہے۔ یہ شعبہ ہے اسپیڈ بریکر، اس کو کچھ لوگ جمپ بھی کہہ لیتے ہیں۔یہ ہم پاکستانیوں کی اپنی ایجاد ہے۔ میں دنیا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک گھوم چکا ہوں، دیکھ چکتا ہوں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی اسپیڈ بریکر اس کے طرح موجود نہیں جس طرح پاکستان میں پائے جاتے، بنائے جاتے ہیں۔اسپیڈ کی بعض جگہوں پر کم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں پر سڑک پر زیبرا کراسنگ بنا دی جاتی ہے۔پاکستان میں بھی کئی جگہوں پر زیبرا کراسنگ نظر آتی ہے کہیں کہیں، مگر اسپیڈ بریکر آپ کو ہر جگہ گلیوں میں، بازاروں میں، چھوٹی سڑکوں پر، بڑی شاہراہوں پرنظر آتے ہیں۔ مقصد ان کا بھی اسپیڈ کو کم کرنا، ریڈیوس کرناہے۔ جس طرح کے اسپیڈ بریکر پاکستان میں دیکھے جاتے ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہیں جن کو اگر وہیکل بریکر یعنی گاڑی توڑکہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اسپیڈبریکر کی وبا شہروں سے چلتی ہوئی دیہات اور چھوٹی چھوٹی بستیوں تک بھی پھیل چکی ہے۔ شاید قانون میں اسپیڈ بریکر بنانے کی اجازت ہو اگر ایسا ہے تو یقینی طور پر اس کا کوئی معیار بھی ہو گا۔ جو شہروں کے پوش علاقوں میں تو نظر آتا ہو لیکن دیہات اور بستیوں میں معیار نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اپنے گھروں کے سامنے، دکانوں کے سامنے، اس طرح کے جمپ بنا دیئے جاتے ہیں کہ چھوٹی گاڑیاں اوپر سے گزرتی ہیں تو ان کا نچلا حصہ نقصان سے نہیں بچ سکتا۔ دیہات میں یہ کہا جاتا ہے کہ نوجوان موٹرسائیکل اتنی اسپیڈ میں چلاتے ہیں جن کے لیے ایسے اسپیڈ بریکر بنانا ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ نوجوان کہاں سے آ تے ہیں ؟اسی بستی اور گا?ں کے ہوتے ہیں ان کی تربیت کرنے کی بجائے بریکر بنا دیا۔ شہروں کے پوش علاقوں میں ہر سو یا ڈیڑھ سو فٹ کے فاصلے پر ایک اسپیڈ بریکر نظر آئے گا۔پاکستان میں بہترین شاہراہیں ،موٹرویز ہیں، ان پر آپ چار پانچ گھنٹے سفر کرتے ہیں، گاڑی اچھی ہے تو آپ کو سفر محسوس نہیں ہوتا ، جیسے ہی آپ اپنے شہروں میں داخل ہوتے ہیں، جگہ جگہ آپ کو اسپیڈ بریکر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ بازاروں میں بھی نظر آتے ہیں، بڑی بڑی سوسائٹیوں میں بھی۔ آپ کو شہر میں دو تین کلومیٹر سفر کرنا پڑے۔ معیار کے مطابق بنائے گئے اسپیڈ بریکر ز بھی آپ کا انجر پنجر ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ تین چار گھنٹے کی مسافت جو آپ نے بلاتھکان کی ہوتی ہے وہ ساری کسر یہاں ان قدم قدم پر بنائے گئے اسپیڈ بریکروں کی وجہ سے پوری ہو جاتی ہے۔
 ایک جرمن مفکر کا کہنا ہے کہ کسی ملک کے عوام کے شعور اور ترقی کا اندازہ کرنا ہوتو اس کی ٹریفک کو دیکھو۔ ہمارے ہاں کی بے ہنگم ٹریفک کسی بھی غیرملکی کے لیے ہمارے بارے میں کیا تاثرچھوڑتی ہوگی۔ اسپیڈ بریکر دیکھ کر توہر غیر ملکی سر پیٹ لیتاہے۔ ان اسپیڈبریکروں کی وجہ سے جہاں گاڑیاں تباہ ہوتی ہیں، وہیں گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کے جسمانی پیچ بھی ڈھیلے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ بڑی شاہراہوں پر تین چار گھنٹے سفر کرنے کے بعد آپ کے اندر کچھ بھی کرنے کی انرجی موجود ہوتی جو ان اسپیڈ بریکروں کی نذر ہو جاتی ہے۔ ایک طرف ہمارے ہاں اسپیڈ کنٹرول کرنے کے لیے جمپ بنائے جاتے ہیں۔دوسری طرف یہی اسپیڈ بریکر یہی جمپ ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتے ہیں۔ ترقی میں اسپیڈ بریکر، معیشت میں اسپیڈبریکر،سیاست میں اسپیڈبریکر،جمہوریت میں اسپیڈبریکر، دفاعی ، تعلیمی اور عدالتی نظام میں اسپیڈبریکر، ہر جگہ اسپیڈبریکر۔اگر پاکستان میں کہیں اسپیڈ بریکر نہیں ہے تو وہ لاقانونیت کے آگے اسپیڈبریکر نہیں ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے آگے اسپیڈبریکر نہیں ہے، رشوت اور لوٹ مار کے آگے اسپیڈبریکرنہیں ہے، جرائم کے آگے اسپیڈبریکر نہیں ہے۔ گویا وطن عزیز میں برائیاں اور جرائم اسپیڈ فری ہیں۔
 اے آر ڈی میں مجھے نوابزادہ نصر اللہ خان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ نوابزادہ نصراللہ خان پاکستان میں جمہوریت کے شاید ان کی وفات تک سب سے بڑے چیمپئن تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں جمہوریت کے پودے کو پنپنے نہیں دیا جا رہا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ آپ گملے میں ایک پودا لگاتے ہیں، چند روز کے بعد اس پودے کو آپ اوپر کھینچتے ہیں، پھر وہ جڑیں پکڑتا ہے پھر آپ اوپر کھینچتے ہیں۔اس کی جڑیں مضبوط نہیں ہونے دیتے۔ یہی کچھ وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ ہوتا ہے، جمہوریت کو پنپنے اور مضبوط نہیں ہونے دیا جاتا۔ جمہوریت مضبوطی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے تو اس کے آگے بھی اسپیڈبریکر آ جاتا ہے۔ پاکستان کی جمہوریت اور ریاست کی بات کریں تو مجھے یہاں پر ایک حوالے سے فلسطین کے ساتھ موازانہ کرنا پڑتا ہے۔ فلسطین دنیا کی پرعزم قوموں میں سے ایک ہے۔ اس کو آج بھی اسرائیلی جبر اور مظالم کا سامنا ہے۔اسرائیل کو دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ طاقت کے حوالے سے بات کی جائے تو فلسطین اس کے مقابلہ میں بہت ہی کم طاقت ہے ،معمولی طاقت ہے۔لیکن اس دفعہ فلسطین کی طرف سے جس طرح اسرائیلی مظالم کا جواب دیا گیا ہے۔اس نے اسرائیل کا سارا غرور خاک میں ملا دیا۔ اسرائیل کی طرف سے ہر چار پانچ سال کے بعد فلسطین کو تباہ کرکے رکھ دیا جاتا ہے۔ آبادیاں کی آبادیاں اکھیڑ دی جاتی ہی،بکھیر دی جاتی ہیں۔ لیکن پ±رعزم فلسطینی چندسال کے بعد اسی طرح سے اپنی بستیاں بسا لیتے ہیں، اسی طرح سے اپنے پلازے اور عمارتیں کھڑی کر لیتے ہیں۔پاکستان میں بھی ایسا ہی کچھ جمہوریت کے ساتھ ہوتا ہے۔ چند سال کے بعد پاکستان میں طالع آزما کبھی براہ راست اور کبھی کسی بھیس میں تسلط حاصل کر لیتے ہیں۔ اس دوران ہر چیز تلپٹ ہو کر رہ جاتی ہے۔ معاملات پھر سیاستدانوں کے پاس آتے ہیں۔ ان میں مخلص سیاستدان ہوں یا نامخلص سیاستدان ہوں بہرحال طالع آزما?ں سے وہ کئی درجے بہتر ہیں۔ ان کے پاس معاملات آتے ہیں تو پھر وہ حالات کو کنٹرول کر لیتے ہیں۔جیسے ہی پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہونے لگتی ہے، معیشت استحکام کی طرف جا رہی ہوتی ہے تو ایک بار پھر طالع آزما ،مہم ج±و پھر سے دندناتے ہوئے وہی مشق دہرا دیتے ہیں۔
میں جب شروع میں پاکستان سے دنیا کو دیکھنے کے لیے نکلا، بنگلہ دیش گیا۔ابھی بنگلہ دیش کو پاکستان سے الگ ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا ان دنوں بنگلہ دیش میں ایک روپیہ کے 31ٹکے آتے تھے اس کے بعد پھر پاکستان میں مہم جو?ں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت ڈوبتی چلی گئی اور آج صورت حال یہ ہے کہ روپیہ ٹکے ٹوکری ہو چکا ہے۔اب ایک ٹکا لینے کے لیے آپ کو تین روپے دینے پڑتے ہیں۔کہاں ایک روپے کے 31ٹکے ملتے تھے اور کہاں روپے کی یہ ویلیو ہو گئی ہے۔ اب ہمیں کچھ ریورس کرنے ہوگا۔ جو اسپیڈبریکر ہمارے ملک میں اکانومی کے آگے ،جمہوریت کے آگے، سیاست کے آگے،عدالتی نظام کے آگے، تعلیم کے آگے لگے ہوئے تھے ان کو وہاں سے ہٹا کر دہشت گردی کے ،لاقانونیت کے ،مہنگائی بے روزگاری کے ،رشوت اور لوٹ مار کے آگے لگانے ہوں گے ،تو ہی ملک ترقی اور خوشحالی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔
قارئین! جس طرح آج ہماری ملکی معیشت ،قومی سیاست ، فکری و ذہنی ایجوکیشن اور معاشرتی اقدار کی زبوں حالی نظر آ رہی ہے یہ سب اپنی اپنی فیلڈ میں کسی اسپیڈ بریکر سے متاثر ضرور ہوئے ہیں۔ مثلاً پاکستان میں ایک موٹروے پراجیکٹ جب شروع کیا گیا تو اس کی لاگت کا تخمینہ 16ارب روپے اس وقت لگایا گیا مگر تاخیری حربوں، کمیشنوں کے جھگڑوں کی وجہ سے وہ پراجیکٹ 130 ارب روپے میں مکمل ہوا۔تو اسی طرح لاہور اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ ،میٹروبس کا منصوبہ اور پشاور میں بھی میٹروبس کا منصوبہ اپنی اصل لاگت سے دس گناہ زائد بجٹ پر مکمل ہوئے۔تو پاکستان کے ادارے یعنی نیپرا وغیرہ جو ان چیزوں کو واچ کرتے ہیں، وہ اس بات کا خیال کیوں نہیں رکھتے کہ ایک منصوبہ دو سال میں مکمل ہونا ہے وہ دس سال میں مکمل ہوگا تو اس دوران ڈالر اور روپے کے درمیان فرق کا تناسب بڑھتا جائے گا۔تو اس لیے اسے اپنے وقت پر مکمل کرنا ترجیح بنیادوں پر ممکن بنایا جائے۔اس طرح ہمارے سسٹم کے اندر موجود دیکھے اور اَن دیکھے ہاتھ صرف اپنی کمیشن اور کِک بیک کی خاطر اسے سبوتاڑ نہ کر سکیں۔یقینا یہ اسپیڈ بریکر اپنے مفادات کی جنگ لڑتے ہوئے بیوروکریسی اور خفیہ ہاتھوں کی مدد سے بھرپور مزاحمت کرتے ہیں مگر ریاست کے پاس اپنے وسائل اور طاقت اس لیے ہوتی ہے کہ وہ اس ”اسپیڈبریکرز “کو کسی بھی وقت بلڈوز کر سکیں۔

ای پیپر دی نیشن