قارئین! اپنی جانب سے ہر ممکن کوشش کرتا ہوں کہ وطن عزیز سے ساڑھے پانچ ہزار میل دور ہوتے ہوئے اپنے پاکستان کے بارے میں ایسی مثبت خبریں تلاش کروں جن میں ملکی سلامتی‘ قومی عزت و وقار‘ سیاسی استحکام اور عوامی خوشحالی کا پہلو نمایاں ہو۔ میں یہ چاہتا ہوں اور نہ ہی میرا قلم مجھے یہ اجازت دیتا ہے کہ ہر جمعرات کو اپنے ’’ولایت نامہ‘‘ میں صرف اور صرف ملکی سیاست کے بدلتے رنگوں اور ان شعبدہ باز سیاست دانوں اور اراکین اسمبلی کو بے نقاب کروں جنہوں نے عوام سے ووٹ حاصل کرنے سے قبل بے روزگاروں کو روزگار مہیا کرنے‘ مہنگائی سے نجات دلانے‘ بھولے بھالے محلہ داروں کی نالیوں کی صفائی‘ پکی گلیاں‘ پانی کا نکاس‘ صاف پانی کی فراہمی‘ ادھڑی ہوئی سڑکوں کی مرمت‘ پولیس تھانوں سے بے قصور افراد کی رہائی اور بیچلرز‘ ماسٹرز کو سرکاری یا نیم سرکاری محکموں میں ملازمتیں دلانے کے وعدے کئے۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ اپنے عوام کو طفل تسلیاں دیتے ہوئے انہیں جلد خوشحالی‘ آئی ایم ایف‘ ورلڈ بنک اور دوست ممالک کی جانب سے دیئے بھاری قرضوں کے حوالے سے انکے معاشی و اقتصادی حالات جلد بہتر ہونے کی پیش گوئی کروں۔ چاہتا یہ بھی نہیں کہ اپنے سادہ لوح عوام کو انسانی حقوق کے بارے میں کوئی ’’فالز ہوپ‘‘ دوں۔ چاہتا یہ ہوں کہ دنیا بھر میں میرے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین و قانون اور انسانی حقوق کے تحفظ سمیت سیاسی استحکام اور حقیقی جمہوریت کا بول بالا ہو تاکہ کوئی دشمن قوت سرزمین پاک کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔ اب یہ سوال کہ یہ سب کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ سادہ الفاظ میں اس کا جواب یہ ہے کہ ملک کی ہر سیاسی پارٹی‘ ہر سیاست دان اور ہر سرکاری و نیم سرکاری ادارہ اپنا قبلہ اگر درست کرلے تو عوام کی خوشحالی کی راہ خودبخود ہموار ہو سکتی ہے۔ اس عمل کیلئے فرفر انگریزی بولنے‘ سی ایس ایس کرنے‘ یا آئین دستور میں وقتاً فوقتاً خواہشات کے مطابق ترامیم کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی کہminister West سے حاصل کی گئی جمہوریت کا رول ماڈل تو ہم کئی برس پہلے حاصل کر چکے ہیں۔ پھر ردوبدل کیسا؟ pat Exکو دنیا بھر میں بلاشبہ عزت و احترام اور انکی خدمات کے حوالے سے اہم شخصیات میں شامل کیا جاتا ہے۔ مگر ہم اوورسیز پاکستانیوں کا معاملہ عجیب ہے۔ دن رات دل اپنے وطن کی سلامتی کیلئے دھڑکتا ہے۔ یہی نہیں برطانیہ‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ عرب امارات اور یورپی ممالک کے سرکاری‘ نیم سرکاری یا پھر نجی دورے پر جب بھی پاکستان سے کوئی وزیر‘ مشیر‘ سینیٹر‘ معاون خصوصی‘ رکن اسمبلی یا کوئی اللہ والا آتا ہے‘ ہمارے خوشحال بزنس مین اور اپنی مدد آپ کے تحت حاصل کئے گئے سیاسی و سماجی عہدیداران بغیر وقت ضائع کئے انہیں اپنی میزبانی میں لیتے ہوئے انکی روسٹ مرغیوں کی ٹانگوں اور ’’ست رنگے چاولوں‘‘ سے ایسی تواضح کرتے ہیں کہ اس اعزاز کی خوشی میں اپنے وہ وسائل جن سے دوران تعطیلات انہیں اور ان کے بچوں کو دوچار ہونا پڑتا ہے‘ دانستہ طور پر اس لئے نظرانداز کر دیتے ہیں کہ مبادا وزیر یا مشیر صاحب ناراض نہ ہو جائیں۔
میرے ایسے ہی ایک بزنس مین دوست نے جو اپنے بچوں کے ہمراہ تین ہفتے کی تعطیلات گزارنے آج کل وطن عزیز میں ہیں‘ اگلے روز فون پر اطلاع دی کہ ان کا موبائل فون جو وہ اپنے استعمال کیلئے ساتھ لائے ہیں‘ سروس نہیں دے پا رہا۔ اپنی اس مشکل کا ذکر انہوں نے جب مقامی فون کمپنی کے کسی نمائندے سے کیا تو جواب ملا‘ فون چونکہ یو کے سے آیا ہے اس لئے اس پر حکومتی ٹیکس لازم ہے۔ ٹیکس کی امائونٹ کیا ہوگی‘ اس کا فیصلہ فون کی قیمت اور اسکی قسم پر ہوگا کہ بغیر حکومتی ٹیکس آپ یہ فون استعمال نہیں کرسکیں گے۔ مگر مجھے تویہ فون واپس یوکے اپنے ہمراہ لے جانا ہے؟ دوست نے متعلقہ صاحب سے پوچھا۔ تو جواب وہی تھا کہ ٹیکس دینا ہی دینا ہے‘ خواہ آپ اپنے اس استعمال شدہ فون کو واپس لے جائیں۔ دوست نے مزید بحث سے اجتناب کرتے ہوئے اپنا یہ دکھڑا مجھے سنا ڈالا اور ساتھ یہ طعنہ کہ وہاں تم ہر وقت ہمیں حب الوطنی کا سبق پڑھاتے رہتے ہو‘ اب تم ہی بتائو کہ تین ہفتے کیلئے اپنی ماں کو اگر بوسہ دینے کی خواہش لے کر آیا ہوں تو اس پر بھی بھاری ٹیکس جو ایک لاکھ روپے تک ہو سکتا ہے۔‘ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ دوست بے چارہ ’’وہیل چیئر بائونڈ‘‘ بھی ہے۔ اس لئے اس نے ہر وہ ممکن کوشش کی جس سے وہ بھاری ٹیکس سے محفوظ رہ سکے مگر کامیاب نہیں ہو سکا اور پھر مجبوراً اس نے برطانیہ میں اپنے بیٹے کو فون کرکے اپنی یہ مشکل بیان کی اور بیٹے نے فوری طور پر متبادل انتظام کردیا۔
دکھ اس بات کا ہے کہ یہ دوست بھی برطانیہ میں تیسرے چوتھے ماہ پاکستان سے آئے وزیروں‘ مشیروں‘ ارکان اسمبلی اور خصوصی معاونین کو ’’بریانیاں‘‘ اور چھوٹے گوشت کی رانیں کھلا چکا ہے۔‘‘دوست کے طعنے سے چونکہ میں بھی محفوظ نہیں رہا‘ اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے برطانوی پاکستانی دوست کا یہ مسئلہ اپنے کرم فرما معروف قانون دان اور حال ہی میں وزیراعلیٰ پنجاب کے خصوصی حکم پر اوورسیز پاکستانی کمیشن پنجاب کیلئے نامزد کئے وائس چیئرمین بیرسٹر امجد ملک کے سامنے رکھوں کہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کیلئے حکومت نے جہاں دیگر ادارے مختص کئے ہیں‘ وہیں او پی سی کے وائس چیئرمین کو بھی خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں۔ ملک صاحب کی دیگر خوبیوں میں ہر اچھے اور برے وقت میں دوستوں کی مدد کرنا بھی چونکہ شامل ہے‘ اس لئے مجھے قوی امید ہے کہ برطانوی پاکستانیوں کے دیگر مسائل کے علاوہ برطانیہ سے مخصوص مدت کیلئے وطن عزیز جانے والے پاکستانیوں کے موبائلز فون پر حکومت کی جانب سے لگائے بھاری ٹیکس کے خاتمہ کیلئے اپنی پہلی فرصت میں ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کریں گے کہ اوورسیز پاکستانیوں کی جائیدادیں اور اراضی پہلے ہی وہاں محفوظ نہیں۔سالانہ چالیس ارب ڈالر بھجوانے والے اوورسیز پاکستانیوں کا یہ مسئلہ اگر حل ہو گیا تو جناب امجد ملک کو سلیوٹ کرنا میرا فرض بن جائیگا۔