صوبے کی جامعات۔ گورنر، وزیر اعلیٰ میں بے جا رسہ کشی

26ویں آئینی ترمیم جیسے مشکل ترین کام پراکٹھے بیٹھے۔ ایک با ر دو بار نہیں بلکہ درجنوں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ مولانا فضل الرحمان کو مکمل اور ان کے ذریعے اپوزیشن کو بھی ایک حد تک قائل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ن لیگ اور پی پی قیادت صد فی صد ایک پیج پر نظر آئی۔اب ستائیسویں ترمیم کی باز گشت ہے ،اس پر بھی اکٹھے ہی ہوں گے۔ اِس وقت حکومت میں بھی ایک جسم دو جان کی مانند ہیں اور پی ڈی ایم حکومت میں تو اس سے بھی اعلیٰ درجے کا تعلق اور ہم آہنگی رہی۔
 کیا وجہ ہے کہ جامعات میں وائس چانسلروں کی تعیناتی پر پی پی اور ن لیگ میں رسہ کشی ہے ؟ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ یہ مسئلہ 26ویں ترمیم سے بھی زیادہ کٹھن ہے اور اس پر گورنراور وزیراعلیٰ پنجاب کے درمیان خلیج پرْ ہونے کی کوئی صورت نطر نہیں آتی ،بلکہ مسئلہ جو 25 جامعات میں وی سی تعیناتی کاتھا اورصرف سات کا یک طرفہ ‘ ا?رڈر جاری ہوسکا ، وہ اب حل ہونے کی بجائے کافی بڑھ چکا ہیَ۔ صوبے کی پانچ جامعات میں فیکلٹی ڈین تعیناتیاں بھی تعطل کا شکار ہو گئی ہیں۔ خبر ہے کہ وزیر اعلیٰ نے مختلف جامعات کی طرف سے بھیجے گئے تین تین ناموں میں سے ایک ایک نام تجویز کرکے گورنر کو بھیجا جس پرگورنر نے بطور چانسلر اعتراض لگایا ہے کہ یہ اختیار گورنر کا ہے نہ کہ وزیر اعلیٰ کا۔ قانونی ماہرین کے مطابق چانسلرسردار سلیم حیدر کا اعتراض بالکل درست ہے۔ ڈین تعیناتی کا اختیار چانسلر کا ہے۔ روایت بھی یہی رہی ہے ، پریکٹس بھی اور قانون بھی۔ البتہ قانونی ماہرین کے مطابق وی سی تعیناتی کے لئے سرچ کمیٹی کی طرف سے تجویز کردہ تین ناموں میں سے ایک تجویز کرنے کا اختیار وزیر اعلیٰ کا ہے۔ چانسلر اعتراض لگا سکتاہے مگر حتمی فیصلہ وزیراعلیٰ کا ہو گا۔لہٰذا وی سی لگانے کا اختیار سی ایم اور ڈین لگانے کا اختیار چانسلر کا ہے۔ مگر اس سادہ سے مسئلے نے جس انداز سے طوالت پکڑی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ جانبین کے قانونی مشیروں کی وجہ سے ہے۔ برف پگھلنی چاہیے۔ ایک طرف وفاق میں مثالی تعلق اور دوسری طرف یہاں صوبے میں پروفیشنل ورکنگ ریلیشن بھی نہیں۔ مسئلہ اہم ہے مگر حل طلب بھی۔  اگر وی سی اور ڈین تعینات نہیں ہوں گے تو یونیورسٹیاں نہیں چلیں گی۔ یونہی چلیں گی تو مزید برباد ہوں گی۔ جاتی عمرہ میں وزیر اعلیٰ مریم نواز اور گورنر سردار سلیم حیدر اکٹھے نظر آئے۔کیا ہی اچھاہوتا کہ 26ترمیم گرینڈڈائیلاگ کی سائیڈ لائن پر صدر آصف زرداری، لیگی سپریم لیڈر نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف ،جامعات کی بات بھی کرتے اور وزیر اعلیٰ اور گورنر کے مابین اختیارات کے استعمال کے مسئلہ کو حل کراتے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور ایک بار بھر ثابت ہوا کہ تعلیم ترجیح نہیں۔ اختیار کے استعمال کی رسہ کشی بند ہو نی چاہیے۔ آخری حل یہی ہے کہ یا تو صدر اور وزیر اعظم مداخلت کریں یا پھر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نوٹس لیں اور آرڈر جاری کریں۔ 
 اہم خبر ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت ہائرایجوکیشن کی طرف سے جامعات کی 65 ارب روپے کی فنڈنگ بند کرے اور ایسا ماڈل بنایا جائے کہ جامعات وائس چانسلر کی بجائے ایک ایڈمنسٹریٹر کے ماتحت کام کریں ، اپنے اخراجات فیسوں اور دیگر وسائل سے پورا کریں۔ یہ جواز بھی پیش کیا گیا کہ ہائر ایجوکیشن کے بعض ادارے ایسے ہیں جن میں اسٹاف کی تعداد طلبہ سے زیادہ ہے۔ ایسے ادارے وفاق پر بوجھ ہیں۔ اگر پرائیویٹ ادارے نفع بخش ہیں توسرکاری ادارے نقصان میں کیوں؟ بات یہ ہے کہ گورننس کے مسائل اپنی جگہ اور ضرور حل ہونے چاہیئں اس میں کوئی دو آراء نہیں مگر ہمارے ہاں پہلے ہی تعلیم ترجیح نہیں اور کْل قومی آمدن کا صرف دو فی صد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے جو کم از کم چارسے پانچ فی صد تک ہونا چاہیے۔ آئی ایم ایف کی اس شرط کو ماننا اور اِکادْکا ادارے جہاں اسٹاف طلبہ سے زیادہ ہے ، کو جواز بنا کر پیش کرنا ناکافی ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ کل آبادی کے صرف ایک سے دو فیصد بچے جامعات تک پہنچ پاتے ہیں اور ان میں اکثریت کا تعلق متوسط طبقے سیہے جو گذشتہ چند سالوں میں مہنگائی کی لہر کے باعث نچلے متوسط طبقے میں بدل چکاہے۔ اکثر جامعات پہلے ہی فیسوں میں اضافہ کر چکی ہیں جس سے نہ صرف داخلوں کی شرح متاثر ہوئی بلکہ ڈراپ آوٹ ریٹ میں کئی گنا بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہر تیسرا بچہ قسط کی شکل میں فیس ادا کرپاتا ہے۔ جامعات میں فیس معافی اور اقساط کرانے والے بچوں کی قطاریں لگ گئی ہیں۔ رواں مالی سال ایچ ای سی کے 120ارب کے مطالبے کے باوجود پہلے تو صوبائی جامعات کے فنڈ باکل بند کردئے گئے اور صرف فیڈرل کیلئے25ارب مختص کئے گئے مگر بعدازاں فپواسا اور یونیورسٹیوں کے احتجاج پر گذشتہ سال کے برابر 65ارب بجٹ کا اعلان کیا گیا جو ناکافی ہے۔ حالانکہ وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کر رکھا ہے ، مگرحقیقت میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست دانوں کے بیرونی دوروں ، گاڑیوں، پیٹرول، دیگر مراعات اور غیر ضروری اخراجات کو کم کرکے ہائر ایجوکیشن اور تحقیق پر خرچ کیا جائے۔جو قومیں تعلیم پر زیادہ خرچ کرتی ہیں وہیں ترقی یافتہ ہیں۔ 
 

ای پیپر دی نیشن