سیاسی اور ماحولیاتی’’سموگ‘‘۔

بے شک یہ ربّ ذوالجلال کی جانب سے ہمارے لیئے آزمائش کے مراحل ہیں کہ سیاسی فضا مکدّر ہے تو بڑھتی، پھلتی پھولتی سموگ نے بھی ہمارے اوپر مایوسی کی چادر تان رکھی ہے۔ آج لاہور کا کم و بیش ہر گھر مردِ بیمار کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ ایک جانب سیاسی آلودگی ملک اور عوام کا مستقبل تاریک کرتی نظر آتی ہے تو دوسری جانب ماحولیاتی آلودگی ہمیں چاروں شانے چت کرنے پر تْلی بیٹھی نظر آرہی  ہے۔ گویا ’’سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں‘‘۔  وطن عزیز پر چھائے سیاسی گرد و غبار پر تو افراد اور اداروں سمیت ہر کوئی متفکر نظر آتا ہے اور سیاسی گردوغبار کی جو ’’رونقیں‘‘ لگی ہوئی ہیں اس سے یارلوگ دور کی کوڑیاں لانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ شاید حکومتی اتحادی جماعتوں کی قیادتیں ’’معاملہ ہی کیا ہو اگر زیاں کیلئے‘‘ کی سوچ پر کاربند ہیں اس لئے انہیں کاروبار سیاست میں سودوزیاں کی کوئی پرواہ نظر نہیں آتی۔ مگر انگڑائی لے کر جو بن دکھاتے موسمیاتی ماحول پر ہمیں انسانی بقاء کے حوالے سے ضرور متفکر ہونا چاہیے جس سے نمٹنے کے لیئے زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی عملی اقدام اب تک اٹھایا جاتا نظر نہیں آرہا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی مشیرِ خاص مریم اورنگ زیب اپنی ماحولیات کی وزارت کی اس فیلڈ میں اچھی کارکردگی کا تشہیری مہم کے ذریعے تاثر اجاگر کرنے کے معاملہ میں تو بہت مستعد نظر آتی ہیں اور آج انہوں نے وزیر اعلیٰ کے ایما پر شہریوں کے لیئے ماسک پہننے کی لازمی پابندی کا حکمنامہ بھی جاری کر دیا ہے اور تعلیمی ادارے تا حکمِ ثانی بند کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے مگر سموگ کے روٹ کاز کی خبر لینے کا جو اصل کام ہے وہ حکومتی گورننس کا کہیں حصہ بنا نظر نہیں آ رہا۔ رواں ماہ کے دوران وقفے وقفے سے لاہور اور پنجاب کے دوسرے شہروں کے علاوہ کراچی اورحیدر آباد سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں بھی فضا پر گرد و غبار کی جو چادر تنی نظر آئی ہے، اس سے عجیب اداسی کی کیفیت طاری ہو رہی ہے۔ ہمارے اکابرین اور اداروں کو سیاسی آلودگی والے ماحول کو لمحہ بھر کو جھٹک کر ماحولیاتی آلودگی کے مضمرات کے بارے میں بھی سنجیدگی سے غور کر لینا چاہئے کہ کہیں ذاتِ باری تعالیٰ کی جانب سے ہمارے اعمال کی سزاؤں کا نقشہ تو نہیں بنایا جا رہا۔
ہمارے بعض روشن خیال حلقوں کو تو اس بات سے ہی چڑ ہے کہ طوفانوں، سیلابوں اور زلزلوں کی شکل میں رونما ہونے والی قدرتی آفات کے اسباب میں خالقِ کائنات خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے انسانوں کے لئے آزمائش اور گناہوں کی سزا کا تذکرہ کیوں کیا جاتا ہے۔ اس دھرتی کو جھنجوڑنے والے اور انسانی اوسان خطا کرنے والے زلزلوں پر مَیں نے اپنے ایک کالم میں اجتماعی توبہ کے لئے ربِّ کائنات سے رجوع کرنے اور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی اپیل کی تو کئی ’’روشن خیال‘‘ احباب نے اسے میری دقیانوسی سوچ کے کھاتے میں ڈال دیا۔ انہیں زیر زمین پلیٹوں کے اپنے مقام سے سرکنے کے عمل سے تو زلزلے کے اسباب بنتے نظر آ جاتے ہیں مگر پلیٹس کس کے دستِ قدرت میں ہیں اور ان کے اوپر زمین کو کھڑا کس نے کیا ہے، ان کی روشن خیالی اس بحث کو دنیاوی سائنسی علوم کی ضد سمجھتے ہوئے انہیں اس کی تضحیک کے شوق میں مبتلا کر دیتی ہے۔ نظام کائنات کے بارے میں خالقِ کائنات سے بہتر بھلا اور کسی کو ادارک ہو سکتا ہے؟ اس کرۂ ارض پر تخلیق و تباہی کے سارے اسباب اسی ذاتِ باری تعالیٰ کے دستِ قدرت میں ہیں جس تک ناقص انسانی سوچ کی رسائی ممکن ہی نہیں، اگر ربِّ کائنات نے خود اپنی کتابِ ہدایت، صحیفۂ آسمانی قرآن مجید میں زلزلوں اور دوسری قدرتی آفات کے ذریعے سرکش انسانوں کو آزمائش میں ڈالنے اور اپنے گناہوں سے معافی مانگ کر راہِ ہدایت اختیار کرنے کی تلقین کی ہے اور زلزلوں کے ذریعے اس کرۂ ارض کے جھنجوڑے جانے اور پہاڑیوں سمیت اس دھرتی پر موجود ہر چیز کے پْرزے پْرزے ہو کر روئی کے گالوں کی طرح اُڑانے کے عمل کا قیامت کی نشانیوں کے طور پر تذکرہ فرمایا ہے تو اس کو رد کرنے کے لئے ناقص انسانی عقل کے تحت کسی منطق اور استدلال کی بنیاد پر بحث و تمحیص کی گنجائش بھلا کہاں نکلتی ہے۔ نظامِ کائنات بہر صورت ربِّ کائنات ہی کے دستِ قدرت میں ہے۔ چنانچہ اس نظام کے حوالے سے کسی تغیّر و تبدل پر ہمیں ربِّ کائنات سے ہی رجوع کرنا ہے جس میں کسی بحث اور دلیل کی قطعاً گنجائش نہیں۔
ذرا اسی تناظر میں ارضِ وطن کی فضاؤں پر چھائے گرد و غبار کا جائزہ لیں تو اس کے پیش آمدہ مسائل ہم سے تفکر و تدبر کا ہی تقاضہ کرتے ہیں۔ اس گرد و غبار کو جو فوگ سے ہوتا ہوا سموگ تک آپہنچا ہے‘ کئی دوست احباب دْھند کا نام دیتے رہے ہیں حالانکہ دْھند میں نمی ہوتی ہے اور وہ کبھی کبھار بارش کی طرح برستی بھی نظر آتی ہے مگر ہماری فضاؤں پر چھائے گرد و غبار کو کسی صورت دْھند کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں نمی کا شائبہ تک نہیں ہے اور یہ خزاں آلود موسم کی طرح انسانی ذہنوں پر قنوطیت والے اثرات غالب کر رہا ہے۔ اکثر لوگ یہ شکایت کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ اس گرد و غبار کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں جلن شروع ہو جاتی ہے اور ان کے لئے سانس لینا بھی محال ہونے لگتا ہے۔ اس گردوغبار کی وجہ سے ہی لوگ تسلسل کے ساتھ بخار کی کیفیت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور صحت مند زندگی کی جانب واپس لَوٹنے کے لیئے کوئی میڈیسن کارگر ہوتی نظر نہیں آرہی۔ گذشتہ ایک ماہ سے میری اپنی بھی یہی کیفیت ہے جو میں اس سے قبل ڈینگی اور کرونا کے امراض کی شکل میں بھی بھگت چکا ہوں۔ مگر سموگ نے تو حشر ہی اٹھا دیا ہے کہ اس کا تسلسل ختم ہونے میں ہی نظر نہیں آرہا۔ پھر یہ ہم سرکش انسانوں کے لیئے قدرت کی آزمائش نہیں تو اور کیا ہے۔ یقیناً یہ گرد و غبار آکسیجن کو بھی اپنی جانب کھینچ رہا ہے جس کے نتیجہ میں فضاؤں میں آکسیجن کی کمی واقع ہو رہی ہے اور انسانوں کے لئے سانس لینا دشوار ہو رہا ہے۔ آپ اس ایک خیال سے ہی اندازہ لگا لیں کہ ہم کرّوفر اور نخوت و تکبر کے سانچے میں ڈھلے انسان قدرت کی جولانیوں کے آگے کتنے بے بس ہیں۔ ذرا تصور کیجئے آج ایک لمحے کو کرۂ ارض پر آکسیجن ناپید ہو جائے تو یہاں کہیں بھی زندگی کے آثار نظر نہیں آئیں گے۔ پھر نظامِ کائنات چلانے کی ربِّ کائنات کی حکمت کے آگے بھلا کوئی پَر مار سکتا ہے؟ بھئی ہم یہ قیافے تو لگا سکتے ہیں، ٹامک ٹوئیاں تو مار سکتے ہیں کہ ارضِ وطن پر چھائی سموگ کا سبب ہماری جانب سے تیزی سے پھیلائی گئی ماحولیاتی آلودگی بھی ہو سکتی ہے جس میں ہمارے پڑوسی بھارت کا بنیادی کردار ہے مگر اس حقیقت سے چشم پوشی کر رہے ہیں کہ آج انسانی آبادیاں صنعتوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، سڑکوں پر گاڑیوں کے جمِ غفیر سے نکلتے زہریلے دھوئیں نے بھی ماحولیاتی آلودگی کے اسباب پیدا کئے ہیں اور ہماری جانب سے درختوں کو بے دریغ کاٹنے کے عمل سے بھی موسموں میں رد و بدل ہو رہا ہے جو ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ تو جناب مان لیجئے کہ  انسانی بے تدبیریوں کے نتیجہ میں ہی ہماری فضائیں مکدر ہو رہی ہیں۔ سو ہماری فضاؤں پر طاری آج کا گرد و غبار انہی انسانی بے تدبیریوں کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ بھارت میں تو آلودگی کے باعث سالانہ ایک لاکھ بچوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں جبکہ آلودگی کے باعث  ہماری حالت تو قابل رحم ہو چکی ہے۔ ماہرین ارضیات اسی حوالے سے گزشتہ کئی برس سے چیخ و پکار کر رہے ہیں کہ ہم نے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کر کے موسمی تغیّر و تبدل کے اسباب پیدا کر دئیے ہیں جو بالآخر اس کرۂ اراض پر انسانی تباہی پر منتج ہوں گے۔ مگر اس پر نہ تو متعلقہ ادارے فکر مند ہیں، نہ حکومتوں کے کانوں پر جوں رینگتی نظر آتی ہے اور نہ ہم انسانوں نے انفرادی طورپر ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے کا کبھی سوچا ہے۔ گرد و غبار سے بچاؤ کے لئے وقتی طور پر تدابیر اختیار کی جاتی ہیں کہ اپنے گھروں، دفاتر اور گاڑیوں کے دروازے اور کھڑکیاں مکمل بند رکھی جائیں تاکہ اس گرد و غبار کی کوئی لہر اندر داخل نہ ہو سکے، اگر باہر نکلنا ہے تو مخصوص ماسک پہنے بغیر نہ نکلیں اور آکسیجن کی کمی محسوس ہونے کی صورت میں فوراً قریبی ہسپتالوں کا رُخ کیا جائے۔ آنکھوں میں جلن محسوس ہونے پر عرق گلاب کے چھینٹے ماریں مگر قدرت کی منشا کے آگے سر جھکانے اور راضی برضا ہونے کی سوچ کہیں پیدا ہوتی نظر نہیں آتی۔ آج تو پورے ماحول پر ناصر کاظمی کے اس شعر جیسی کیفیت طاری ہوتی نظر آ رہی ہے کہ…
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے۔
جناب انسانی بقاء کے لیئے کوئی چارہ کر لیجئے ورنہ ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

ای پیپر دی نیشن