عالمی موسمیاتی معاہدوں کی پاسداری وقت کا تقاضا!

دنیا بھر میں کہیں قحط سالی سے عوام کا جینادوبھر ہے توکسی جگہ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں نے انسانی زندگی کو دائو پر لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے جہاں مجموعی اقتصادی پیداوار میں کمی دیکھنے کو ملی وہیں مختلف صنعتوں اور ٹرانسپورٹ سے خارج والے نائٹروجن اور کاربن کے مرکبات سے بھی فضائی آلودگی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔کرئہ ارض پر روز افزوں ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ اورگرین ہائوس گیسوں کے اخراج سے’’ گلوبل وارمنگ ‘‘میں اضافہ حقیقت میں اقوام عالم کو ایک سنگین’’ وارننگ‘‘ ہے جس سے روئے زمین پر پائے جانے والے تمام جانداروں کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ماحولیاتی آلودگی سے ایک اندازے کے مطابق اربوں ڈالرز نقصان کے علاوہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک میں لاکھوں اموات ہو رہی ہیں۔جنوب مشرقی ایشیاء اور کئی دیگر ممالک کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہر 3  میں سے2 جبکہ امریکہ، چین اور بھارت میںآلودگی سے مجموعی طور پر ہزاروں افراد موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیںکیونکہ ان ممالک میں زہریلا مواد خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ ستمبر 2021 ء میں عالمی ادارہ صحت نے جو گلوبل ایئر کوالٹی گائیڈ لائنز جاری کیںان کے مطابق ہر سال فضائی آلودگی سے 70 لاکھ قبل از وقت اموات کا تخمینہ تھاجو اب بڑھ کر ایک کروڑ سے تجاوز کر چکا ہے۔ 1992ء میں اقوام متحدہ کے آب و ہوا کی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن میں گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کیلئے مختلف تجاویز زیربحث آئیں۔ جاپان میں تیسرے فریم ورک کنونشن کے دوران 160 سے زائد ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت متعین کردہ اہداف میں اس ایجنڈے کو فوقیت دی گئی کہ گرین ہائوس گیسزجو گلوبل وارمنگ کی سب سے بڑی وجہ ہیں ان کے اخراج کو کم سے کم کیا جائے گا لیکن فروری 2005ء سے اس معاہدے کو جب عملی جامہ پہنانے کا وقت آیا تو واشنگٹن نے اس کی توثیق سے انکار کر دیا۔چین نے 2020ء تک کوئلے کی پیداوارمیں 500 ملین ٹن کمی کا جوہدف مقرر کیا تھا اس حوالے سے کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔بھارت بھی معاہدوں کی پاسداری نہ کر سکاجس سے اب خدشہ یہی ہے کہ آنے والے برسوں میں موسمیاتی اثرات تیزی سے بڑھیں گے۔
 خشک سالی کے اختیار کرتے طویل ادوار، بے موسمی بارشیں،سیلاب ،زراعت کے بدلتے انداز ، پیداوار میں کمی، پانی کی عدم دستیابی اور حیاتیاتی تنوع یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں کے ہی منفی اثرات ہیں جن سے چھٹکارہ وقت کا تقاضا توہے لیکن ترقی یافتہ ممالک کے تعاون کئے بغیر یہ ممکن نہیں۔’’گلوبل وارمنگ‘‘ کی اصطلاح اب’’ گلوبل بوائئلنگ ‘‘میں بدل چکی ہے۔درجہ حرارت میں خوفناک اضافہ سے اوزون کی تہہ کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ گلیشیر پھٹنے سے سیلابوں کا خطرہ پیدا ہواہے جس سے موسم تیزی سے بدل رہے ہیں، کہیں خشک سالی ہے تو کہیں سیلاب، صنعتی کوڑا کرکٹ نے پانی اور زمین سے اگنے والی خوراک کو بھی آلودہ کر دیا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے سمندر اور منجمد خطوں کو اس دور میں جتنا نقصان ہو رہا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ریکارڈ اخراج سے سطح سمندر کے اضافے میں نمایاں طور پر تیزی دیکھنے میں آئی۔ موسمی تغیر کے باعث مختلف ممالک کو طوفانی بارشوں ، سیلابی ریلوں اور سمندری طوفانوں کا سامنا بھی کرنا پڑا،ماہرین کے مطابق 2100ء تک سمندر کا لیول 9سے 100سینٹی میٹر تک بڑھنے سے ساحلی شہر ڈوب جائیں گے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں گلیشئرزکے بارے میں یہ اندازہ ہے کہ اس صدی کے آخر تک ان کا 80 فیصد حصہ پگھل جائے گا جس کے اثرات کروڑوں لوگوں پر پڑیں گے۔ سمندروں کی سطح بلند ہونے، انسانوں کی نقل و حرکت کے بڑھ جانے سے جنگلی حیات بھی اپنے مسکن تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔فضائی آلودگی میں اضافہ سے اوزون کی حفاظتی تہہ کونقصان پہنچنے کے سبب مختلف تباہ کن شعاعیں جب زمین پر پہنچتی ہیں تو اس سے خوفناک بیماریاں جن میں سکن کینسر بھی شامل ہے جنم لے رہی ہیں۔ 2018ء میں ریکارڈ کی گئی سمندری حدت ماضی کے اعداد و شمار کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھی اگر ماحول خراب کرنے کی سرگرمیاں اسی طرح جاری رہیں تو رواں صدی کے اختتام تک 6 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے جس سے دنیا کا نقشہ تبدیل ہوجائے گا۔
موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی کے سبب اقوام عالم ان دنوں شدید تشویش اور اضطراب میں مبتلاہے کیونکہ گرین ہائوس گیسز کے اخراج کی روز افزوں بڑھتی مقدار کے باعث پانی، ہوا اور درجہ حرارت جیسے گونا گوں ماحولیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔اقوام متحدہ تواسے ’’جہنم کے دروازے کھولنے‘‘ سے تشبیہہ دے چکا ہے۔عالمی اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی مشترکہ رپورٹ میںیہ انکشاف کہ اگلی 2 دہائیوں کے دوران درجہ حرارت میں اڑھائی درجے سیلسیئس کا اضافہ ہو گا جس سے زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہو گی۔ 1850ء کے بعد سے عالمی درجہ حرارت میں 1.1 ڈگری سینٹی گریڈجبکہ 2011 ء سے 2015 ء کے درمیان 0.2 سینٹی گریڈ تک مزید اضافہ ہوا۔’’ڈبلیو ایم او‘‘کی رپورٹ کے مطابق 2014 ء سے لے کر 2019 ء تک کا 5 سالہ عرصہ گرم ترین رہا۔اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹس کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں یہ واضح اشارہ دیا گیا ہے کہ 2025ء میں پاکستان کو پانی کی شدید کمی جبکہ 2040ء تک بدترین قحط سالی کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔گرین ہائوس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے لیکن مقام افسوس کہ عالمی حدت کے باعث موسمیاتی تباہ کاریوں کے مضر اثرات بھی سب سے زیادہ اسی پر پڑ رہے ہیں۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق لاہور اور دہلی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔سموگ انسانی و جنگی حیات کی ہلاکت کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ زرعی پیداوارپر بھی مضر اثرات ڈال رہا ہے جس سے چھٹکارے کیلئے یکساں اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ پشاور اور سندھ میں لاکھوں ایکڑ اراضی پرشجر کاری جبکہ پنجاب میں ’’ چیف منسٹر کلائمیٹ لیڈرشپ انٹرن شپ پروگرام‘‘ کے یقیناً دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔گلوبل وارمنگ کو اب بھی مشترکہ کاوشوں سے ہی 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کیا جا سکتا ہے تاہم موسمیاتی تبدیلی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے عالمی کوششوں کو مضبوط بنانا تاحال بہت مشکل ہے کیونکہ اس کیلئے ترقی پذیر ممالک کو فنڈنگ کی فراہمی یقینی بنانا ہو گی۔

محبوب احمد چودھری----نقطہ ٔ  نظر

ای پیپر دی نیشن