یکم نومبر کو پشاور میں جلسہ ، بشریٰ بی بی کی شرکت متوقع
وزیراعلیٰ خیبر پی کے کھل کر کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے بشریٰ بی بی کی رہائی میں اہم کردار ادا کیا ہے میرے اسٹیبلشمنٹ میں رابطے ہیں۔ کیا طے ہوا، یہ نہیں بتایا۔ شاید راز میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ان پر پارٹی کے اندر اور باہر بہت سے رہنما اور کارکن پہلے ہی شکوک و شبہات کا اظہار کر چکے ہیں۔ سو اب وہ اپنی ساکھ بچانے کے لیے یکم نومبر کو پشاور میں کھڑکی دروازے توڑ جلسہ کرانا چاہتے ہیں جس میں بشریٰ بی بی بھی شاید اظہار تشکر کے لیے شرکت کریں گی یا ہو سکتا ہے وہ اب باقاعدہ سیاست میں آ رہی ہوں۔ علی امین گنڈا پور نے اس سلسلہ میں تمام ایم این ایز کو اپنے حلقے سے ایک ہزار اور ایم پی ایز کو 500 بندے لانے کا پابند کیا گیا ہے۔تاکہ بشری بی بی متاثر ہوں۔ شاید پہلے کی طرح وزیر اعلیٰ خود حاضری لگائیں گے اور بندے اور گاڑیاں گنیں گے۔خدا جانے کارکنوں کے لانے لے جانے کے لیے سرکاری گاڑیاں استعمال ہوں گی یا نہیں۔ ویسے بھی انہوں نیان کے لئے حکومت سے سکیورٹی کی فراہمی کی گارنٹی لی ہے۔ اسے ہم ڈیل نہیں کہہ سکتے جب بیرسٹر گوہر چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ڈیل نہیں ہوئی تو ہم کون ہیں یہ کہنے والے۔ اب وزیر اعلیٰ نے وزیر اعلیٰ ہائوس میں ایک اجلاس کے دوران ایک بار پھر مظہر شاہ ،ہمایوں قریشی ، بدر منیر اور مصطفی قریشی کی یاد تازہ کراتے ہوئے ’’اگر بانی کو کچھ ہوا تو وہ‘‘ کے محاورے کے مطابق اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اب معلوم نہیں ان کا اشارہ تاش والے اینٹ کے پتے کی طرف تھا یا تعمیراتی اینٹ کے۔ بہرحال لوگوں کو جلسہ کی طرف راغب کرنے کے لیے وہی جیل کی کال کوٹھری۔ بجلی ، پانی ، خوراک ، ادویات کی بندش اور بانی کی جان کو خطرے کا بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا بھی پتہ نہیں وہ سیاسی اجتماع میں شریک ہوں گی یا نہیں۔ مزاج کے لحاظ سے ان کو ہی یہ سوٹ کرتا ہے کہ وہ رحمن بابا یا خوشحال خان خٹک کے مزار پر جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ آگے ان کی مرضی۔ ڈیل کے مطابق بھی سیاست سے دوری بہتر ہے۔
پولیس کی رکاوٹیں توڑنے پر ایمان مزاری اور ان کا شوہر گرفتار
انسانی حقوق کے لیے بات کرنا اور کام کرنا بڑے اعزاز کی بات ہے ، مگر اس کی آڑ میں خود کو سپر مین ، ہر قسم کی پابندی سے مبرا سمجھنا ایک غلط بات ہے۔ اگر بدمعاشی اور غنڈہ گردی کرنا خود کو قانون سے بالاتر سمجھنا بہادری کی علامت ہے تو پھر کہنے دیجئے کہ ہر غنڈہ، بدمعاش، موالی، بہت بڑا بہادر ہے۔ انہیں بْرا بھلا کہنے کا کسی کو حق نہیں۔ ان کی بھی عزت کرنی چاہیے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں جو واقعہ پیش آیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ کیا وہ قابلِ تعریف ہے۔ ایک معروف شاہراہ پر جہاں باقی لوگ بھی بیرئیر پر رکے ہوئے تھے۔ اچانک ایمان مزاری اور ان کے شوہر نے گاڑی سے نکل کر خود کو سپرمین سمجھ لیا اور بیرئیر ہٹا کر پولیس والوں کے روکنے پر انہیں خوب جلی کٹی سناتے ہوئے ہاتھا پائی کی یوں ہیرو اور ہیروین بننے کی کوشش کی جس پر ان کو پکڑا گیا اور کیس کر دیا گیا ہے۔ اب دیکھ لیں انسانی حقوق کی بات کرنے والی تنظیمیں اور شخصیات اس بارے میں شور کرنے لگی ہیں۔ بدقسمتی سے ہم میں سے جس کو بھی ذرا بھر اہمیت ملتی ہے وہ خود کو مادرپدر قسم کی ہر پابندی سے آزاد سمجھنے لگتا ہے۔ بے شک بلاوجہ راستے بلاک کرنا، وی آئی پی موومنٹ کے نام پر کافی دیر تک سڑک بند کرنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر کبھی کبھی ایسا کرنا سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ضروری ہوتا ہے۔ عام لوگ توخوشدلی سے تعاون کرتے ہیں۔ مگر ہماری اشرافیہ ، وردی والے ہوں یا غیر وردی والے یا ان کے گھر والی عورتیں ہوں یا بچے سب خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہوتے ہیں اور روک ٹوک پر ہاتھا پائی، گالم گلوچ پر اْتر آتے ہیں۔ کبھی کوئی خاتون کبھی لڑکا کبھی لڑکی اپنے باپ کے بل بوتے پر سڑک پر تماشہ لگانے سے باز نہیں آتے۔ اوپر سے جب پکڑے جائیں تو کیمرے کے سامنے وکٹری کا نشان بناتے بڑے فخر سے خود کو مظلوم اور حق پرست ثابت کرتے ہیں۔ گویا بڑا اچھا کام کرکے آئے ہیں۔اب توہر ملزم وکٹری کا نشان بنا تا پھرتا ہے۔
پنجاب پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل کے 2 بیٹے 4 بیٹیاں ڈاکٹر بن گئیں۔
بے شک قابل فخر ہیں وہ والدین جو اس مہنگائی کے دور میں بھی جب جسم و جان کا رشتہ جوڑے رکھنا مشکل ہو گیا ہے اپنی لگی بندھی تنخواہ میں گزارہ بھی کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم بھی دلواتے ہیں اور آفرین ہے ان بچوں پر جو اپنے والدین کی محنت ضائع جانے نہیں دیتے اور ان کی توقعات پر پورا اترتے ہیں۔ ایک ایسے ہی خوش نصیب یہ پولیس ہیڈ کانسٹیبل انصر رزاق ہیں جس کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ڈاکٹر بن گئی ہیں۔ یہ بے شک اللہ کا بڑا احسان ہے اس شخص پر ورنہ یہاں بڑے بڑے مالدار بھی ایسی خوشیوں کو ترستے ہیں کہ ان کی اولاد بھی کچھ بن کر دکھائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ شخص رزق حلال پر ایمان رکھتا ہو اور اسی کی بدولت آج اس کی اولاد یہاں تک پہنچی ہے۔ جو لوگ حلال حرام کی تمیز نہیں کرتے ان کی قسمت میں ایسی خوشیاں کم ہی ہوتی ہیں۔ آج کل تو ایک دو بچوں کو پڑھانا، انہیں اچھی تربیت دینا مشکل ہو گیا ہے۔ چھ بچوں کو ایسی اچھی تربیت اور تعلیم دینا وہ بھی میڈیکل کی۔ بڑی بات ہے۔ کیونکہ یہ سب سے مہنگی تعلیم ہے۔ اخراجات برداشت کرنا بڑے دل گردے کی بات ہے۔ اب آئی جی پنجاب نے خصوصی دعوت پر ہیڈ کانسٹیبل کو اپنے دفتر بلایا ہے تاکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ صرف یہی نہیں آئی جی صاحب کو چاہیے کہ وہ ا س اہلکار کے لیے کچھ ایسا کریں کہ اس کی زیست میں کوئی مشکل پیش آئے تو یہ خندہ روی سے اس کا مقابلہ کرے۔ اس کے بچوں کو بھی خصوصی انعام دیں جو آج اس قابل ہوئے ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کے والد کو اعزاز و اکرام مل رہا ہے۔
شاعر نے درست ہی کہا تھا :
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔
خدا کرے یہ بچے بھی اپنے معاشرے کے غریبوں کی خدمت کر کے نیک نامی کمائیں۔
رتن ٹاٹا مرنے کے بعد بھی حاتم طائی ہی رہے
جی ہاں اس پارسی ارب پتی بھارتی صنعتکار نے اپنی زندگی میں بھی لوگوں کی خدمت و مدد کی، اور اپنی وصیت میں بھی تمام جائیداد جو 10 ہزار کروڑ روپے ہے۔ اپنے بھائی اور سوتیلی بہنوں کے علاوہ اپنے ذاتی ملازموں،فیکٹری ورکروں، پالتو جانوروں اور فلاحی اداروں کے نام وقف کر دی ہے۔ صرف یہی نہیں اپنے ورکروں اور ملازمین کو دئیے قرضے بھی معاف کر دئیے ہیں۔ ہمیں ہمارا مذہب سب سے زیادہ اپنے زیر نگرانی ملازموں، ورکروں کے حقوق کی پاسداری کا درس دیتا ہے۔ قرض معاف کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ بہن بھائیوں کو جائیدادوں میں سے ان کا حصہ ادا کرنے کی تاکید کرتا ہے مگر دیکھ لیں ہم سب سے زیادہ انہی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم نے ایمانداری یا بے ایمانی سے جو ایک ایک پیسہ جوڑ کر یہ سب کچھ بنایا ہے۔ یہ بھی قبر میں ساتھ لے جائیں مگر ایسا نہیں کر سکتے۔ اس لیے بہت مجبوری کے ساتھ پھر ہم یہ سرمایہ اپنے پسماندگان میں سے بھی صرف بیٹیوں یا بیوی کے لیے چھوڑتے ہیں۔ کسی اور کو ایک دھیلا تک دینے کے روادار نہیں ہوتے۔ کون سے بھائی بہن ، کونسے سماجی خیراتی ادارے یا پالتو جانور۔ ہم تو ان کو زندگی میں ایک پیسہ نہیں دیتے۔ ان کے نام کچھ کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ رتن ٹا ٹا ایک عام آدمی تھا کوئی سپرمین یا درویش سادھو نہیں تھا۔ ہاں ایک ہمدرد انسان ضرور تھا جس نے مرنے کے بعد بھی انسانیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ درجہ بدرجہ سب کو کچھ نہ کچھ دیا۔ شاید خدا نے اسے دیا ہی اتنا بہت اس لیے تھا کہ وہ اسے تقسیم کرنے کا حوصلہ رکھتا تھا۔ ہم اگر ایک مسجد ، مدرسہ، سکول ، ہسپتال بنا لیں تو مرتے دم تک دوسروں کو جتلاتے رہتے ہیں کہ ہم نے یہ کیا وہ کیا۔مگر رتن ٹاٹا نے مرنے کے بعد بھی سب کچھ دان کر دیا۔ جو ہم مسلمانوں کے کرنے کے کام ہیں وہ یہ پارسی کر گیا۔ مگر ہمیں شرمندگی چْھو کر نہیں گزری۔ ٹاٹا بھارت کے چوٹی کے صنعتکار اور دولت مند شخص تھے۔ ان کی اچھائیوں کی وجہ سے انہیں لوگ یاد کر کے روتے ہیں۔ وہ قارون نہیں بنے جیسے ہمارے ہاں دولت مند بنتے ہیں۔ مگر جاتے وہ بھی خالی ہاتھ ہی ہیں۔
٭٭٭٭٭