سعودی عرب کے دورہ کے دوران وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے مضبوط پاک سعودی اقتصادی شراکت داری کا اعادہ کیا اور تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون کے دائرہ کار میں جاری دو طرفہ تعاون مزید بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں رہنمائوں نے خطے میں جاری اسرائیلی جارحیت پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ریاض میں فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو کے 8 ویں اجلاس کے موقع پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے متعلق معاملات پر سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کی حمایت پر محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کیا۔فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو اجلاس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہم آپ کو سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں تاکہ آپ اپنی مہارت اور تخلیقی صلاحیتوں کو پاکستان میں لائیں کیونکہ ہم ایک ایسے مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں جس کی جڑیں لچک اور مشترکہ خوشحالی پر مبنی ہوں۔پاکستان تین اہم شعبوں مصنوعی ذہانت، تعلیم اور صحت میں جدت طرازی کے ذریعے علم پر مبنی معیشت کی بنیاد رکھ رہا ہے جس میں وہ مفید شراکت داری قائم کرنے کا خواہاں ہے۔
پاکستان کی معاشی صورتحال اور عالمی منظر نامے کے تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ سعودی عرب نہایت اہمیت کا حامل ہے۔معاشی حوالے سے پاکستان کو گونا گوں مشکلات اور مسائل درپیش ہیں۔جبکہ عالمی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو اسرائیل کی جارحیت مسلمانوں کی غیرت و حمیت کو للکار رہی ہے۔اسرائیل نے جس طرح اپنی جنگ کو پورے مشرق وسطیٰ تک پھیلا دیا ہے اس پر اقوام متحدہ بے بسی کا اظہار کر سکتی ،عالمی طاقتیں بے حسی سے کام لے سکتی ہیں بلکہ امریکہ جیسے ممالک تو اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں مگر مسلم امہ اس کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ محمد بن سلمان اور شہباز شریف کے مابین ملاقات کے دوران فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔اسرائیل مذمتوں، قراردادوں اور تشویش کے اظہار سے راہ راست پر آنے والا نہیں ہے۔ آج اسرائیل کی جارحیت کے خلاف مسلم امہ کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔یہ کام سعودی عرب اور پاکستان ہی کر سکتے ہیں۔ ترکیہ اور ایران جیسے مضبوط ممالک اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔سعودی عرب کیلئے تمام اسلامی ممالک کے عوام اور حکمرانوں کے دلوں میں یکساں احترام پایا جاتا ہے۔ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات ایک عرصہ کشیدہ رہے مگر اب ان تعلقات میں بہتری آچکی ہے۔اسرائیل نے جنگ مشرق وسطیٰ اور ایران تک پھیلا دی ہے۔اسرائیل کی طرف سے ایران، یمن عراق، شام، لبنان پر حملے ہو چکے ہیں۔حماس اور حزب اللہ کی ایک کے بعد دوسری قیادت کو بھی ٹارگٹ کر کے شہید کیا جا چکا ہے۔ اسرائیل کی یہ جنگ کسی بھی مسلم ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ایسی صورتحال سے قبل اسرائیل کو نکیل ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کا بطور مسلم ممالک کی واحد ایٹمی پاور ہونے کے ناطے اور سعودی عرب کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اس دورے کے دوران اس حوالے سے بھی مثبت پیشرفت ہوگی۔
پاکستان کی معیشت زبوں حالی سے بہتری کی طرف گامزن ہے جسے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔مہنگائی بے، روزگاری بڑھ رہی ہے۔ اسی سے لا قانونیت بھی جنم لیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا عفریت بھی پاکستان میں موجود ہے۔ دوست ممالک کی طرف سے پاکستان میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ چین ، متحدہ عرب امارات، کویت ،ترکیہ اور قطر بڑے پیمانے پر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب ان سب سے آگے ہے۔پاکستان کی ہمیشہ سعودی عرب کی طرف سے مشکل وقت میں مدد کی گئی ہے۔سعودی عرب کو بھی جب کبھی پاکستان کی معاونت درکار ہوئی خصوصی طور پر دفاعی امور میں تو پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ہمیشہ سے اعتماد اور ایثار کا رشتہ برقرار رہا ہے۔
آج پاکستان کی معیشت قرضوں پر چل رہی ہے۔ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرض پاکستان کے لیے طوق بن چکے ہیں۔ پاکستان ان سے بہر صورت نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے موقع بہ موقع بیل آؤٹ پیکج دیئے جاتے اور پاکستان کی طرف سے لیے جاتے ہیں۔ہر پیکج کے موقع پر ہمارے حکمران اسے آخری قرار دے کر ایک اور ’’آخری پروگرام ‘‘پر کام شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں دوست ممالک سرمایہ کاری کر رہے ہیں ،امداد بھی دی جاتی ہے، ٹیکس پر ٹیکس بھی لگائے جاتے ہیں۔حکومت کو حاصل ہونے والے محصولات کا بڑا حصہ عوامی فلاح و بہبود، ریلیف ،سبسڈیز اور ترقیاتی کاموں پر صرف ہونے کی بجائے قرض اور سود کی واپسی میں چلا جاتا۔
سود خور عالمی مالیاتی اداروں سے جان چھڑانے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔ریاست کا پورا زور اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری پر ہوگا تو قرضوں کی ضرورت رہے گی نہ ہی عالمی مالیاتی اداروں کی محتاجی کی۔پاکستان میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری آتی ہے جیسا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی عرب سے پاکستان میں سرمایہ کاری میں مزید اضافے کی بات کی ہے۔سعودی عرب کی طرف سے اس پر اتفاق بھی کیا گیا ہے۔ آذربائیجان قازقستان ،ازبکستان کرغزستان ،بیلا رس جیسی وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بھی پاکستان کا اقتصادی تعاون بڑھ رہا ہے۔روس بھی پاکستان میں سرمایہ کاری میں اضافہ کر رہا ہے۔ ایسی سرمایہ کاریوں سے پاکستان خود انحصاری کی طرف بڑھے گا۔ اس سے پاکستان کے ایشین ٹائیگر بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔