بابو عمران قریشی سہام
imran.tanveer@hotmail.com
ہمارے پیارے نبی ؐ کی مبارک زندگی تمام انسانیت کیلئے بہترین نمونہ ہے آپؐ کی ذات اقدس تمام اعلیٰ اوصاف کا مجموعہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ رسول اللہ ؐ کی حیات طیبہ تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ آپ ؐکی پیروی خداکی محبت کا ذریعہ ہے۔آپؐکی ہستی ایک ایسا سورج تھی جو تمام جہان کو روشن ومنور کرتی ہے۔جس کی روشنی سے کائنات کے ہر ذرے نے نو ر وہدایت حاصل کی ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ "اے نبی ؐ ہم نے آپ کوتمام جہانوں کیلئے رحمت بناکر بھیجا ہے"۔ ایک مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو اور متاع حیات کا حقیقی مقصد ہی دراصل محبت رسول ؐہے اور جس شخص کا دامن اس متاع حیات سے خالی ہے تویوں سمجھیں کہ اس کا دعویٰ اسلام و ایمان ادعائے بے دلیل ہے۔حقیقی مومن محمد مصطفیؐ سے محبت کو اپنی جان،اپنے مال،اپنی اولاد اور اپنے والدین پر ہر طرح سے مقدم سمجھتاہے۔
تاریخ اسلام ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ شمع رسالت ؐ کے پروانوں نے نا صرف حضور پاک ؐکی مبارک زندگی میں ان سے محبت و اطاعت کی بلکہ حضور اکرم ؐکے بعد بھی آج تک نا صرف حیات طیبہ و سیرت طیبہ سے والہانہ محبت کرتے ہیں بلکہ آپؐ کے اسم مبارک پر مرمٹنے کو زندگی پر فوقیت دیتے ہیں اور یہی دراصل شمع رسالت کے پروانوں کی محبت کا عملی ثبوت ہے۔شمع رسالت کے پروانوں میں ایک معتبر نام غازی علم الدین شہید کابھی ہے جنہوں نے حب رسولؐ کے سامنے اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کرکے نا صرف شہادت کو گلے لگایا اور اپنی آخرت سنوار لی بلکہ رہتی دنیا تک اسلام کے شیدائیوں میں اپنانام رقم کرگئے۔ علم الدین ابھی ماں کی گو د میں ہی تھے کہ ایک روزان کے گھرکے دروازے پرکسی بزرگ ہستی نے دستک دی اور صدا لگائی۔علم الدین کی والدہ ماجدہ انہیں گود میں اٹھائے اس بزرگ سوالی کو اپنی استطاعت کے مطابق کچھ دینے کیلئے گئیں تو جب اس بزرگ سوالی نے علم الدین کو دیکھا تو بے اختیار اس کے منہ سے نکلا کہ تیرا بیٹا بڑے ہی نصیب والا ہے اور اللہ نے تم پربڑا احسان کیاہے۔غازی علم الدین کو6اپریل 1929 سے قبل ان کے خاندان کے علاوہ کوئی نہیں جانتاتھا لیکن اس تاریخ نے علم الدین کو زندہ جاوید کردیا اور یوں اس دنیا کے ساتھ ساتھ ان کی عاقبت بھی سنور گئی۔غازی علم الدین نے محبت رسولؐ کے حقیقی تقاضے نبھاتے ہوئے ایک شاتم رسولؐ کو نیست ونابود کرکے نا صرف مسلمان قوم کو بیدار کیابلکہ اپنی جان کا نذرانہ دے کر دنیا کی دوسری اقوام کو بھی واضح طور پر سبق دیاکہ وہ بھی ہمارے رسول اکرمؐ کا اسم گرامی کبھی بھی بدتہذیبی کے ساتھ اپنے لبوں پر یا کتابوں میں لانے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔غازی علم الدین نے پھانسی کی سزا پا کرکے ہندوؤں، سکھوں اور انگریزوں پریہ واضح کردیاکہ ہر مسلمان رسول اللہ کی حرمت پر کٹ مرنے کواپنے بڑی سعادت سمجھتاہے۔اسی لئے تاقیامت جب جب شاتم رسول پیدا ہوں گے تب تب غازی علم الدین کی تاریخ دہرائی جاتی رہے گی۔
اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام اور کتاب ِہدایت قرآن پاک کی حفاظت کا اپنے بندوں سے وعدہ کر رکھاہے۔ 1929 اور اس کے بعد کا عرصہ ہندوستان کی تاریخ میں بڑا ہنگامہ پرور دور تھا۔ہندو مسلمانوں کو نیچا دکھانے اور ان کے دین کو رسوا کرنے کیلئے ذلیل ترین ہتھکنڈے استعمال کررہے تھے۔اس زمانے میں ایک ہندو پروفیسر جتنا منی ایم اے نے رسول مقبولؐ کی شان میں گستاخانہ کتاب (نعوذباللہ) شائع کی۔کتاب کا ناشر راج پال اچار یہ تھا۔مسلمانانِ پنجاب میں اس کتاب کی اشاعت پر شدید غم وغصہ کی لہر دوڑگئی اور انہوں نے بیک زبان مطالبہ کیا کہ یہ کتاب فوراً ضبط کی جائے اور اس کے مصنف اور ناشر کو سخت سزادی جائے۔علم الدین ان حالات سے بے خبر تھے۔ ایک روز وہ حسب معمول کام پر گئے ہوئے تھے،غروب آفتاب کے بعد جب و ہ واپس گھر جارہے تھے تو دلی دروزاہ میں لوگوں کاایک ہجوم دیکھا،ایک جوان کو تقریر کرتے ہوئے دیکھا۔وہ رکے کچھ دیر کھڑے سنتے رہے، پھرقریب کھڑے شخص سے انہوں نے دریافت کیا تو انہوں نے علم الدین کو بتایا کہ راج پال نے نبی کریمؐ کے خلاف کتاب چھاپی ہے اس کے خلاف تقریریں ہورہی ہیں۔کچھ دن گزرنے کے بعد خاموش طبع علم الدین حسب معمول کام سے گھر واپس آئے۔ اس دن وہ بہت تھکے ہوئے تھے رات کو جلدی سوگئے اس روز خواب میں ایک بزرگ انہیں ملے اور انہیں کہا کہ علم الدین تم ابھی تک سورہے ہو تمہارے نبی کریم ؐکی شان کے خلاف اسلام دشمن کھلم کھلا کاروائیوں میں لگے ہوئے ہیں، اٹھوجلدی کرو علم الدین ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھے۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی ان کا تمام جسم پسینے میں شرابور تھا۔ 6اپریل 1929ء کو تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے آپ انار کلی میں داخل ہوگئے اس وقت دن کے ایک بج کر پچاس منٹ ہوئے تھے۔انارکلی میں ہسپتال روڈ پر عشرت پبلشنگ ہاؤس کے سامنے ہی راج پال کا دفتر تھا جہاں وہ بیٹھا کرتاتھا۔اس وقت راج پال کے دو ملازم کدارناتھ اور بھگت رام بھی وہاں موجود تھے۔کدار ناتھ پچھلے کمرے میں کتابیں رکھ رہاتھا۔راج پال نے درمیانے قد کے گندمی رنگ والے جوان کو دفتر کے اندر داخل ہوتے دیکھ لیا۔وہ سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ موت اس کے اتنے قریب آچکی ہے۔علم الدین سیدھے اسی کی طرف آرہے تھے،راج پال کے سامنے پڑی میز کے قریب آکر راج پال اور موت کے درمیان اب صرف چند بالشت کا فاصلہ رہ گیا تھا، اسی لمحے بھگت رام الماری میں رکھی کتابوں کی جھاڑ پونچھ کیلئے بڑھا۔علم الدین راج پال کو پہچان گئے تھے،پلک جھپکنے میں انہوں نے ڈھپ سے چھری نکالی ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور پھر راج پال کے جگر پر جالگا۔چھری کا پھل راج پال کے سینے میں اتر چکا تھا ایک ہی وار اتنا کار گر ثابت ہواکہ راج پال کے منہ سے صرف ہائے کی آواز نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جا پڑا۔شاتم رسول کو قتل کرنے کے بعد علم الدین وہاں سے بھاگ نکلے۔ چار ہندوؤں نے جویہ منظر دیکھ رہے تھے فوراً ن کا تعاقب کیا۔غازی علم الدین بھاگتے ہوئے ساتھ ہی ایک ٹال میں گھس گئے جس کا مالک ایک ہندوتھا اتنے میں تعاقب کرتے اور ہندو بھی وہاں پہنچ گئے ۔ غازی علم الدین کوگرفتار کرکے لوہاری دروازہ کی پولیس چوکی میں لایا گیاجہاں انہیں پولیس دیگن میں بٹھا کر سنٹرل جیل بھیج دیا گیا۔ راج پال کے قتل کی خبر سارے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
مسلمانوں نے اس عظیم مجاہد کو پر جوش خراج عقیدت پیش کیا اور اس کے مقدمہ کی پیروی کیلئے مسلمان وکلاء کی ایک کمیٹی قائم کی گئی۔کیس سیشن میں زیر سماعت تھا جج نے ان دلائل کو تسلیم نہ کیا اور یوں سیشن جج نے علم الدین کو راج پال کے قتل کے جرم میں 22مئی کو سزائے موت کا حکم سنا دیا۔مسلمان وکلاء نے اس فیصلے کے خلاف پنجاب ہائی کورٹ میں اپیل کی۔قائد اعظم محمد علی جناح نے غازی علم الدین کی وکالت کے فرائض انجام دئیے لیکن ہائی کورٹ نے سزائے موت بحال رکھی اور انہیں لاہور سنٹرل جیل سے میانوالی جیل میں منتقل کردیا گیا۔اس دور کی مقتدر شخصیات نے غازی علم الدین کو یہ مشورہ دیا کہ اگر آپ جھوٹ بول دیں کہ میں نے قتل نہیں کیا تو ہم آپ کو اس قتل کے کیس سے بری کراسکتے ہیں۔اس کے جواب میں غازی علم الدین شہید نے ایک تاریخی جملہ کہا کہ "مجھے سامنے جنت نظر آرہی ہے میں جھوٹ کیوں بولوں "۔31اکتوبر 1929 میانوالی کی تاریخ میں یادگار دن ہے کیونکہ اس دن ہی جیل میں عاشق رسول کو تختہ دار پر کھینچ دیا گیا۔ نعش کو فوراً پوسٹ مارٹم کیلئے بھیج دیا گیا،اس کے بعد نعش کو قیدیوں کے قبرستان میں گڑھا کھود کر دفن کردیا گیا۔اس پر لاہو ردہلی گیٹ کے باہر ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا گیا اور بازاروں میں جلوس نکالا گیا، مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ غازی علم الدین شہید کو لاہور دفن کیا جائے۔13نومبر 1929 کو لاہور کے دو میونسپل کمشنر اورایک مسلمان مجسٹریٹ نے غازی علم الدین کی میت میانوالی جیل کے قبرستان میں کھودے گئے گڑھے سے نکلوائی۔ 14نومبر 1929 مسلمانان پنجاب کی تاریخ میں ایک نہایت غیر معمولی دن تھا۔اس صبح5بج کر 35منٹ پر میت لاہور چھاؤنی کے اسٹیشن پر پہنچ گئی۔غازی علم الدین شہید کی نماز جنازہ قاری محمد شمس الدین نے پڑھائی جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی اور انہیں چوبرجی کے پاس ہی میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کردیاگیا۔غازی علم الدین شہید کا بظاہر خاموش جسم مگرحقیقتاً ہمہ تن گویا وجود گواہی دے رہا تھاکہ جب تک فرزندان اسلام میں جان کے نذرانے پیش کرنے والے باقی ہیں ان کے آقا ومولیٰ محمد مصطفیؐ کی عزت و حرمت پر کوئی آنچ نہیں آسکتی!!