حکومت نے 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کروا کر اپوزیشن پر اپنی دھاک بٹھا دی ہے اور معاشی اعشاریے بھی بہتری کا پیغام دے رہے ہیں مگر ملک میں جاری سیاسی افراتفری ہنوز جاری ہے۔ عدم برداشت ،رواداری کا فقدان اور الزام در الزام، جلاؤ گھیراؤ اور پکڑ دھکڑ کی سیاست کے باعث ملک مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے جس سے عوام میں بھی شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق اب ملکی معیشت میں بہتری محسوس کی جاسکتی ہے ،سٹاک مارکیٹ مسلسل مثبت جارہی ہے جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی کاوشوں کے باعث سعودیہ، عرب امارات و دیگر دوست ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری کے معاہدے طے پارہے ہیں یہ سب اقتصادی اعشاریے اور حکومت کی جانب سے مہنگائی میں کمی کے دعوئے اپنی جگہ مگر عوام کو انکے ثمرات سے مستفید کرنے کیلئے مزید توجہ اور عملی اقدامات کی ضرورت اپنی جگہ موجود ہے کیونکہ عام آدمی آج بھی بجلی، گیس اور اشیائے خوردونوش کے مہنگے ہونے کا رونا روتا دکھائی دیتا ہے اسی طرح کاشتکاروں کو انکی فصلوں کا جائز معاوضہ نہیں مل رہا جا سے کاشتکاروں کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پنجاب حکومت نے کاشتکاروں کے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے کسان کارڈ، گرین ٹریکٹر سمیت متعدد اسکیموں کا اعلان کیا ہے مگر کاشتکاروں کا اصل مسئلہ لاگت کے مقابلے میں اجناس کے نرخوں میں کمی ہے جس کے لئے حکومت کو گندم سمیت دیگر اجناس کی سپورٹ پرائس کا اعلان کرنا ہوگا کیونکہ گندم کی طرح کاشتکاروں کو وائٹ گولڈ کپاس ،چاول اور مکئی کی اجناس کا بھی جائز معاوضہ نہیں مل سکا اس وجہ سے کاشتکار سوشل میڈیا پر سراپا احتجاج دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے ملک کی 70 فیصد آبادی کا ذریعہ معاش شعبہ زراعت سے وابستہ ہے اس لئے شعبہ زراعت کی ترقی پر فوکس کرنا ہوگا، ایگرو بیسڈ انڈسٹری کو فروغ دیکر اپنے را میڑیل کی ویلیو ایڈیشن کے ذریعے ہی ہم کثیر زرمبادلہ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی خصوصی ہدایت پر صوبائی وزیر زراعت و لائیو سٹاک سید عاشق حسین کرمانی کی زیر صدارت ایگریکلچر ہاؤس میں اعلی سطحی اجلاس بھی منعقد ہوا۔جس میں وزیر اعلی پنجاب کسان کارڈ،گرین ٹریکٹر اسکیم کی قرعہ اندازی اور سپر سیڈرز کی فراہمی پر اب تک کی پیش رفت اور لانچنگ تقریب کے حوالے سے انتظامات کا جائزہ لیا گیا اس موقع پر صوبائی وزیر زراعت کا کہنا تھا کہ کسان کارڈ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کا تاریخ ساز اور کسان دوست منصوبہ ہے۔ کسان کارڈ کے لییاب تک 14 لاکھ کاشتکاروں کی رجسٹریشن مکمل ہو چکی ہے جبکہ پنجاب بنک نے 4 لاکھ 30 ہزار درخواستیں منظور کر لی ہیں اور اب تک 3لاکھ 10ہزار کسان کارڈ کاشتکاروں نے ایکیٹو کر لیے ہیں۔ پنجاب بھر میں 2600مرچنٹس(رجسٹرڈڈیلرز )کی دوکانوں پر کسان کارڈ کے ذریعے خریداری کا عمل جاری ہے اور کسان کارڈ کی ایکٹویشن کے بعد سے لے کر اب تک کاشتکار 2 ارب روپے کی خریداری کر چکے ہیں۔صوبائی وزیر زراعت نے اس موقع پر کہا کہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف نے صوبہ میں زراعت کے شعبہ میں ترقی اور کسانوں کی خوشحالی کے فقید المثال منصوبے شروع کئے ہیں جن سے کسانوں کے مسائل کم ہونگے اور وہ خود کفیل ہو سکیں گے۔ صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ کسان کارڈ کی فراہمی کے لیے تحصیل کی سطح پر 136ڈلیوری سنٹرز قائم کر دیے گئے ہیں۔گرین ٹریکٹر پروگرام کے لیے جلد شفاف قراندازی کا انعقاد کیا جائے گا اور کاشت کاروں کو 9500 سبسڈی پر فراہم کیے جائیں گے۔انہوں نے واضح کیا کہ ہر ضلع کا کوٹہ اس سکیم کے تحت مختص کیا گیا ہے جس پر شفاف طریقے سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔
دوسری جانب کاشتکار حکومتی پالیسیوں سے نالاں دکھائی دیتے ہیں اور پاکستان کسان اتحاد نے احتجاجی مظاہروں کا عندیہ دیدیا ہے، اس ضمن میں پاکستان کسان اتحاد کے مرکزی صدر خالد محمود کھوکھر نے ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت نے آئی ایم ایف کی فرمائش پر مزید ٹیکسز لگائے تو زراعت کا شعبہ مکمل تباہ ہو جائے گا حکمران آئی ایم ایف کے قرضوں سے عیاشیاں کررہے ہیں لیکن انہیں زراعت کی بہتری کوئی فکر نہیں ہے ملک میں زرعی ایمرجنسی نافذ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اگر زرعی ایمرجنسی نافذ نہ کی گئی تو قحط سالی جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔خالد محمود کھوکھر نے مزید کہا کہ زراعت تباہ ہوئی تو ملکی معیشت ڈوب جائے گی۔ حکومت گندم کا ریٹ مقرر کرے ،گندم کی کاشت کے حوالے سے اجلاس بلائے جائیں,یوریا کھاد کی قیمتوں میں کمی لائی جائے اگر حکومت نے گندم کی فصل پر توجہ نہ دی تو ماضی کی طرح دوبارہ سے آٹے کا بحران جنم لے سکتا ہے۔حکومت ٹریکٹرز پر 9 ارب سبسڈی دیکر 22 ارب روپے کے ٹیکسز لگا رہی ہے جس سے ٹریکٹر انڈسٹری بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے,اس سال صرف تین ہزار ٹریکٹر فروخت ہوئے ہیں ۔ایوانوں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے والوں کا سب کچھ باہر کے ملکوں میں ہے لیکن غریب کاشتکار کا کچھ بھی نہیں ۔پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی ( پی سی سی سی ) کے ملازمین کا احتجاج دوسرے ہفتے میں داخل ہو گیا۔ ملازمین پرانا شجاع آباد روڈ پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ احتجاجی مظاہرین نے وفاقی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور اور اپنی 28 ماہ سے بند تنخواہوں کی ادائیگی کا فوری مطالبہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ ملازمین 28 ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ ملازمین کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت ہے یہ ظلم کسی بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس سنگین مسئلے پر آواز اٹھائیں۔
پاکستان تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ اور دھڑے بندیاں دکھائی دینے لگی ہیں اور موجودہ قیادت ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ چند اراکین سینیٹ و قومی اسمبلی کی بے وفائی بھی کھل کر سامنے آگئی۔ آئینی ترمیم سے قبل مخدوم زین قریشی کے مبینہ اغوا اور واپسی کے بعد مخدوم زین قریشی کی پراسرار گمشدگی پر پی ٹی آئی نے انہیں شوکاز نوٹس جاری کردیا اور ان سے مذکورہ معاملے پر وضاحت طلب کی گئی جس پر مخدوم زادہ زین قریشی نے قومی اسمبلی سے بطور پارلیمانی لیڈر استعفی دیدیا ہے۔ انکی ہمشیرہ مہر بانو قریشی کا بھی کہنا ہے کہ انہوں نے زین قریشی کا معاملہ اپنے والد مخدوم شاہ محمود قریشی کے علم میں لایا جا پر انکے والد نے کہا کہ انہیں زین قریشی پر پورا اعتماد ہے وہ بانی پی ٹی آئی اور مجھے مایوس نہیں کرسکتے۔بعد ازاں پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی زین قریشی نے بطور ڈپٹی پارلیمانی لیڈر استعفیٰ دے دیا۔انہوں نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر بطور ڈپٹی پارلیمانی لیڈر رکن قومی اسمبلی استعفیٰ دینے کا اعلان کیا اور اس کی وجہ پارٹی کی جانب سے دیے جانے والے شوکاز کو قرار دیا۔ زین قریشی نے لکھا کہ میں نے پارٹی کی جانب سے بھیجے گئے شو کاز نوٹس کا جواب دے دیا ہے، آزادانہ اور شفاف انکوائری اور پارٹی کے حامیوں کے جذبات کو تسلیم کرتے ہوئے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کے عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ میں اپنی پارٹی، اپنے لیڈر بانی پی ٹی آئی اور اپنے والد کا وفادار تھا، ہوں اور رہوں گا۔