تعلیم ،صحت اور روزگار کس بھی معاشرے میں عوام کا بنیادی حق ہے اور انہی نعروں کو اپنا منشور بنا کر سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں ۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون وزیراعلی مریم نواز پنجاب کی سربراہ بنی ہیں اور اسی وجہ سے عوام کی ان سے توقعات بھی زیادہ ہی ہیں ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وہ دن رات عوامی منصوبوں کے پائی تکمیل کے لئے کوشاں ہیں اور اس میں مریم نواز نے اپنی کابینہ سمیت بیوروکرویسی کو سخت ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ وہ وہ عوامی منصوبوں اور فلاح و بہبود کے کاموں پر بالکل بھی سمجھوتہ نہیں کریں گی ۔اگر بات کی جائے محکمہ صحت کی تو یہاں سپیشلائزڈ اور پرائمری محکموں کے الگ الگ وزیر ہیں ۔سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کے صوبائی وزیر خواجہ سلمان رفیق ہیں جبکہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیر کے صوبائی وزیر خواجہ عمران نذیر ہیں۔دونوں وزراء ہی اس شعبے کے اندر ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور سابق وزیراعلی شہباز شریف کے ساتھ کئی برس کابینہ میں کام کرچکے ہیں ،مگر محکمہ صحت کے دونوں شعبوں کی حالت ابتر ہے ۔ہسپتالوں میں ادویات کی کمی ،بیڈز کی کمی،مشینوں کی خراب صورت حال ،بلڈنگز کی ری ویمپنگ ،صفائی کے امور بے توجہی کا شکار ہیں ۔ نگران وزیراعلی پنجاب سید محسن نقوی کے دور میں درجنوں منصوبے شروع ہوئے مگر ان پر کام انتہائی سست روی کا شکار ہے ۔ سابق سیکرٹری صحت علی جان جس کے بارے میں ڈاکٹرز کی رائے یہ ہے کہ ان کے دور میں ہسپتالوں میں تیزی سے ترقیاتی کام جاری تھے ۔جب انہوں نے کنٹریکٹرمافیا پر ہاتھ ڈالا درجہ چہارم کے ،ایک سو پچاس کے قریب ایسے ملازمین کو تبدیل کرنا پڑا جن کے بارے یہ باتیں عام تھیں کہ یہ لوگ ہسپتال چلارہے تھے۔مگریہ لوگ اتنے بااثر ہیں کہ انہوں نے سیکرٹری صحت کو تبدیل کروادیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز کی کمیونٹی میں یہ بھی کہا جاتا رہا کہ تبادلوں سمیت دیگر معاملات کو اتنی ہوا دی گئی کہ سپیکر پنجاب اسمبلی اور متعدد ایم پی ایزنے بھی علی جان کے خلاف لابنگ شروع کر دی جس پرانہیں ہٹادیا گیا ۔کیونکہ سابق وزیر اعلی محسن نقوی نے سیکرٹری صحت علی جان کو یہ ٹاسک دیا تھا کہ وہ تمام ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میںڈایئگناسٹک سینٹرز کو فعال کریں ،نئی سی ٹی سکین،ایم آر آئی مشینیںلگائی جائیں جسکی باقاعدہ بڈنگ ہوئی اورایڈیشنل سیکرٹری پروکیومنٹ نے چیزیں خرید بھی لیں مگران کے جانے کے بعد یہ منصوبہ بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا ۔
صوبے کے ہسپتال جن میں لاہور کے تین ہسپتالوں چلڈرن،جنرل اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز میں اس وقت ایم آر آئی مشینیں خراب ہیں۔میوہسپتال کی نئی ایمرجنسی کی اپ گریڈیشن کے لئے پانی کے پائپ ڈالے گئے مگر وہ بند ہوگئے جس سے نئی ایمرجینسی کی سیلنگ گر گئی ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے پانچ ماہ قبل گھر گھر ادویات پہنچانے کا پروگرام شروع کیا ،یہ منصوبہ مذکورہ کمپنی کو رقم کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے بند ہورہا ہے ۔پنجاب کے 14اضلاع میں علاجگاہوں کا انتظام چلانے کیلئے پنجاب ہیلتھ فیسلیٹیزمینجمنٹ (PHFMC) نیابورڈ بنایاگیا مگر ڈھائی ماہ سے اس بورڈ کااجلاس ہی نہیں ہوسکا اور اس بورڈ سی ای او،سی او او۔سی ایف او،چیف انٹرنل آفیسر،چیف ٹیکنیکل بورڈ اور مینجر فنانس موجود ہی نہیں ہیں۔گنگارام ہسپتال کے لئے 17جدیدالٹرسائونڈ کلر ڈوپلر خریدے گئے مگر پونے دوبرس سے یہ مشینیںکراچی پورٹ پر پڑی ہوئی ہیں۔ گنگارام ہسپتال میں 6مشینیں عرصہ درآز سے خراب ہیں ۔
اس کے علاوہ میڈیکل سٹیز کا منصوبہ اسکی ماسٹرپلاننگ ، فزیبلٹی اور بجٹ میں رقم مختص کر کے بھی سرد خانے کی نذر ہورہا ہے ۔نگران دور حکومت میں پورے صوبے کے ہسپتالوں کیلئے دوہزار بیڈز،سٹریچر ،اے سی خریدے گئے مگریہ بھی بروقت نہ لگ سکے ۔ہسپتالوں اور یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز محض میڈیا مینجمنٹ پر کام کررہے ہیں ۔اس صورتحال میں جب وزراء کو وزیراعلی پنجاب مریم نواز کی مکمل سپورٹ حاصل ہے انکی خواہش ہو کہ صحت کا شعبہ ترقی کرے تو اس پر ضرور سوچنا ہوگا کہ پنجاب کے عوام کے ساتھ صحت کے شعبے کے ساتھ ایسا سلوک کیونکر کیاجارہاہے ۔