• news

بوری بند نعشیں کیس : محلات میں رہنے والے بھی اللہ کے عذاب سے محفوظ نہیں رہ سکتے : چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ

پشاور (امجد علی خان) پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت دیگر علاقوں میں ملنے والی بوری بند نعشوں کے واقعات پر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے پر ایک مرتبہ پھر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بوری بند لاشیں مل رہی ہےں مرکزی اور صوبائی حکومتیں عدالتی احکامات کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہو رہیں، اگر مرکزی اور صوبائی حکومتیں عوام کی جان و مال کی حفاظت نہیں کر سکتی ہےں تو ان کو عوام پر حکمرانی کا کوئی حق حاصل نہیں فاضل عدالت نے آئی جی پولیس خیبر پی کے، ایڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشن کو حکم دیا کہ سپیشل برانچ کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں بوری بند نعشوں کے کیسوں کی سائنسی بنیادوں پر تحقیقات کےلئے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے کر ہر ایک کیس کی جامع اور نتیجہ خیز رپورٹ عدالت میں پیش کرنے اور اس سلسلہ میں کسی بھی قسم کا دباو¿ قبول نہ کرنے کے احکامات جاری کر دئیے جبکہ وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ وہ ان کیسوں سمیت حال ہی میں لاپتہ شہری نوید الرحمن کی نعش سے متعلق وفاقی حکومت کے ماتحت کام کرنے والے ایجنسیوں کے ملوث اہلکاروں سے تحقیقات کےلئے جے آئی ٹی کو اختیار دیا جائے اور اگلی تاریخ تک تمام رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے فاضل عدالت نے وفاقی سیکرٹری دفاع و داخلہ کے غیر سنجیدہ رویہ پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں بوری بند نعشوں سے متعلق سنجیدہ اقدامات اٹھانے کا حکم دیا بصورت دیگر عدالت ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے جائیں گے، یہ احکامات جمعرات کے روز عدالت عالیہ کے چیف جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس وقار احمد سیٹھ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے بوری بند نعشوں سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کے ہیومن رائٹس سیل کی رپورٹ پر لئے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کر تے ہوئے دئیے۔ اس موقع پر چیف جسٹس دوست محمد خان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کل بھی چارسدہ کے علاقہ سے بوری بند نعش برآمد ہوئی ہے اور بغیر پوسٹ مارٹم کے اس نعش کو ورثا کے حوالہ کیا گیا ہے۔ موٹروے، جی ٹی روڑ اور بہت ساری چیک پوسٹوں پر کیمروں اور پولیس کی باری نفری کے باوجود آخر کس طرح بوری میں بند نعشوں کو لا کر پھینک دیا جاتا ہے اور پولیس اس سے بے خبر ہوتی ہے آئین کی رو سے شہریوں کی جان ومال کی ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے خلاف ایسا ایکشن لےںکہ جس کے سنگین نتائج برآمد ہوں۔ اس موقع پر وفاق کی جانب سے جمیل ورسک نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے تحریری جواب جمع کرانے کےلئے ایک ہفتہ کی مہلت مانگی گئی ہے۔ اس پر چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد پارلیمنٹ، صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو معلوم نہیں کہ کون کون سا اختیار ان کے پاس ہے مرکز کہتی ہے کہ امن و امان کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کی ہے اور صوبائی حکومت لاعلمی کا اظہار کرتی ہے۔ چیف جسٹس نے فیڈرل گورنمٹ کی جانب سے عدالتی احکامات کو غیر سنجیدہ لینے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس حوالہ سے وفاقی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے یہ محفوظ محلوں میں رہنے واے جان لےں کہ جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو وہ ان محلوں میں بھی نہیں رہ سکیں گے، خدارا ان غریبوں پر رحم کرےں کیا، اپنے شہریوں کے ساتھ ایسا سلوک جائز ہے کہ انہیں بوری بند نعشیں دی جائے فاضل عدالت نے بوری بند نعشوں سے متعلق ڈاکٹروں کی اس رپورٹ کو بھی مسترد کیا جس میں ان کی موت کی وجہ سٹارویشن بتائی گئی ہے۔ فاضل عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومتوں اور پولیس حکام، وفاقی سیکرٹری داخلہ و دفاع کو مذکورہ احکامات جاری کرتے ہوئے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو آخری وارننگ دیتے ہوئے معاملہ کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے عدالتی احکامات کی روشنی میں اقدامات اٹھانے کے احکامات جاری کر دئیے بصورت دیگر بوری بند نعشوں سے متعلق کیس میں عدالتی فیصلہ کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

ای پیپر-دی نیشن